***** زہرہ فونا کی کراچی آمد*****
سن 1970 ء میں انڈونیشیا ایک خاتون زہرہ فونا نے امام مہدی کی والدہ ہونے کا دعو ا کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے رحم میں پرورش پانے والا بچہ امام مہدی ہے کیونکہ اسکے پیٹ سے کان لگا کر سننے پر اذان اور تلاوت قران کی آواز آتی ہے۔یہ خبر زہرہ فونا کے پڑوس اور محلے سے نکل کر پورے شہر اور پھر سارے انڈونیشیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق اس خاتون کا دیدار کرنے اور اس کے پیٹ سے کان لگا کر اذان و تلاوت کی آوز سننے کے لئے آنے لگے۔ جب یہ خبر اخبارات کے ذریعے انڈونیشی حکام تک پہنچی تو سب سے پہلے نائب صدر آدم مالک نے زہرہ کو اپنی رہائش گاہ مدعو کیا اور اس سے ملاقات کر کے اذان سنی۔ اس کے بعد انڈونیشیا کے وزیر مذہبی امور محمد ڈیچلن نے زہرہ سے ملاقات کی ا س کے بعد تو گویا انڈونیشی حکام کی زہرہ فونا سے ملاقات کی لائن لگ گئی۔ خود صدر سوہارتو اور ان کی بیگم نے بھی زہرہ سے ملاقات کی۔ زہرہ کی شہرت انڈونیشیا سے نکل کر پورے عالم اسلام میں پھیل گئی اور کئی اسلامی ممالک کے سربراہاں نے زہرہ کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی۔مختلف مسلمان ممالک میں زہرہ فونا کو سرکاری دعوت پر بلانے کا سلسلہ شروع ہواتو ہماری حکومت نے بھی پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دے ڈالی۔
زہرہ فونا کی کراچی آمد کے بعد چند علماء نے اپنے کانوں سے اذان کی آواز سنی اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کردی کہ زہرہ کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ امام مہدی ہی ہے۔جنگ گروپ نے زہرہ فونا کو بھرپور کوریج دی اور اس کے چرچے پاکستان کی گلی گلی میں ہونے لگے‘ کراچی میں زہرہ کو سرکاری پروٹوکول حاصل ہوگیا۔ مگر لیکن چند سائنٹفک سوچ رکھنے والے ڈاکٹروں کے لئے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگیا چنانچہ انہوں نے صحیح صورت حال معلوم کرنے کا فیصلہ کرلیا‘ ڈاؤ میڈیکل اور اس کے بعد سندھ میڈیکل کالج(کچھ لوگوں کے مطابق جناح میڈیکل کالج) کی طالبات نے زہرہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر زہرہ فونا ہر بار ان طالبات کو چکر دے کر نکل جاتی۔ ایک دن سندھ میڈیکل کالج کی طالبات نے زہرہ کو قابو کرکے معائنہ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے اور دوران تفتیش زہرہ فونا کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا ننھا منا ٹیپ ریکارڈر برآمد کرلیا۔اسی روز زہرہ فونا پاکستان سے براستہ انڈیا انڈونیشیا بھاگ گئی۔ بعد میں زہرہ فونا اور اس کے شوہر انڈونیشیا میں گرفتار ہوئے اور انہوں نے قبول کیا کہ یہ سب انہوں نے دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا تھا۔
اس معاملے میں ہم علماء کو اس لئے موردازام نہیں ٹھہرا سکتے کہ 1970 ء میں ٹیپ ریکارڈر کوئی عام چیز نہ تھا بلکہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ٹیپ ریکارڈر استعمال کرتا ہو۔ لوگ صرف ریڈیو کو جانتے تھے یا کچھ بہت ہی متمول افراد ٹی وی استعمال کرتے تھے۔ دوسرا اس زمانے میں جو ٹیپ ریکارڈر استعمال ہوتے تھے وہ اتنے حجم اور وزن میں ایسی نہ تھے کہ کوئی ان کو اپنی ٹانگوں کے درمیان چھپا سکتا تھا۔ تیسرا علماء‘ دین کے علم میں تو ماہر تھے لیکن اپنی سادہ لوحی اور جدید سائنسی ایجادات سے ناواقفیت کی بنا پر ان کا دھیان اس جانب قطعی نہیں گیا کہ انہوں نے صرف ریڈیو پاکستان میں بڑے اسپول والے ریکارڈر ہی
دیکھے ہونگے۔ اور انہوں نے اذان کی آواز سن کر امام مہدی کے اس خاتون کے پیٹ میں ہونے کے کی تصدیق کردی۔دوسری سن 1969 ء میں اولمپس نامی مشہور کمپنی نے منی کیسٹ پلئیر پہلی مرتبہ مارکیٹ میں متعارف کروایا تھا لیکن یہ ایک خاص چیز تھا اور عام عوام اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ اس قسم کے آلات یورپ امریکہ اور جاپان میں لوگوں کی دسترس میں تھے اور ان کو جیمس بانڈ ٹائپ فلموں میں بطور ایک نئی ایجاد جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والی ڈیوائس کے طور پر دکھایا جاتا تھا اور فلم بینوں کے لئے بھی یہ ایک حیرت انگیز چیز ہوتی تھی۔شاید یہی منی پلیئر زہرہ فونا نے بھی استعمال کیا ہوگا۔یہ بھی دیکھئے کہ جس خاتون نے اپنے ملک کے صدر اور دیگر حکام بالا تک کو ماموں بنا دیا اس کے سامنے ہماری کی حیثیت تھی یہ تو اللہ بھلا کر میڈیکل کالج کی طالبات کا جنہوں نے زہرہ کا بھانڈا پھوڑ کر دنیا کو مزید بے وقوف بنانے سے بچالیا۔
قران پاک کی سورہ حجرات کی آیت94میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ”اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کئے پر پیشمانی اٹھاؤ۔”
ذرائع -: روزنامہ دی نیوز‘ ہیومن رائٹس ایشیاء‘ سیاست ڈوٹ پی کے‘ ہیرالڈویکلی ڈوٹ کوم‘نیا زمانہ ڈوٹ کوم۔
0 Comments
if you have any issue let me know plz