ایک تھا چاہ بہار۔ ۔

ایک تھا چاہ بہار

 اور چاہ بہار بھارت کے ہاتھوں سے نکل گیا جہاں بھارت کو ریلوے لائن بچھانا تھی اور چاہ بہار کی بندرر گاہ کو توسیع دینا تھی۔ بھارت نے ایک سال میں ریلوے ٹریک بچھا دیا اور دوسرے برس اس نے ممبئی سے بحری جہاز کے ذریعے گندھ چاہ بہار پہنچائی اور وہاں سڑک کے راستے اسے افغانستان بھی لے جایا گیا۔ اس سے راز یہ کھلا کہ چاہ بہار تو بھارت کے ہاتھ میں ایسا اڈہ ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے پہلے افغانستان میں قدم جمائے گا اور وہاں سے سڑکوں کا جال بچھا کر وسط ایشائی ریاستوں تک تجارت کا دائرہ بڑھا لے گا۔

 اسی اثنا میں چین نے گوادر میں سرمایہ کاری کی اور اسے دنیا کی جدید ترین گہرے پانیوں کی بندر گاہ میں تبدیل کر دیا۔ گوادر کی ترقی سے چین بھی اپنے تجارتی روابط کو وسیع کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے سی پیک کا منصوبہ تیار کیا جس میں پاکستان کے اندر انفراسٹرکچر کی ترقی بھی شامل تھی اور سی پیک کے مغربی اور مشرقی روٹ پر جگہ جگہ صنعتی زون بھی بنانے تھے تا کہ وہ اپنی مصنوعات پاکستان کی سستی لیبر کے ہاتھوں تیار کرے۔ اس سے پاکستان میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوتا اور چین کو یہ فائدہ پہنچتا کہ وہ عالمی مارکیٹوں میں سستا مال فراہم کر سکتا تھا۔ اب اگر اس ماحول میں بھارت چاہ بہار میں موجود رہتا تو پاکستان اور چین کو ممکنہ فوائد نہیں مل سکتے تھے۔

 اس صورتحال سے پاکستان تو پریشان تھا ہی کہ اس کا ایک دشمن ملک بھارت  ایران اور افغانستان کے ساتھ ساتھ وسط ایشیا تک رسائی حاصل کر لے گا۔ یوں بھارت ہماری مغربی سرحد کو خطرات میں ڈال سکتا تھا۔
کچھ پریشانیوں کا حل قدرت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اللہ‎ کی مدد سے منصوبہ سازوں نے بھارت کو دھول چٹا دی 
 ایران نے بھارت کو چاہ بہار سے بےدخل کر دیا۔

 چاہ بہار کا نام ذہن میں آتا ہے تو ہمیں کل بھوشن یادیو یاد آ جاتا ہے جو ان دنوں بھی خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ایسے کلبھوشن نہ جانے کتنے مزید چاہ بہار کے مسکن میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے اور وہاں سے بلوچستان میں دہشت گردی کی سر پرستی کر رہے تھے تا کہ چین پریشان ہو کر سی پیک سے ہاتھ اٹھا لے اور گوادر پورٹ کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے۔

 اللہ کے شیروں نے ایسا منصوبہ بنایا کے بھارت دنیا میں تنہائی کا شکار ہو گیا اور  ہماری مغربی سرحد  بھی محفوظ ہو گئی   اور اب چاہ بہار کا منصوبہ چین مکمل کرے گا اور چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ایران میں انفراسٹرکچر کو ترقی دے گا۔

 چاہ بہار سے بھارت کے اخراج اور چین کے داخلے سے پاکستان کو تو فائدہ ہوا ہی ، چین کو بھی عالمی تجارت کے لیے دو روٹ مل گئے۔ پاکستان بھی خوش اور چین بھی خوش اور  ایران کے مسائل کا حل بھی خوش اسلوبی سے نکل آیا کیونکہ چین کو امریکی اقتصادی پابندیوں سے قطعی خوف لاحق نہیں۔ بعض لوگ جو بھارت کے لیے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو امریکی پابندیوں کا ڈر تھا مگر ان کا حافظہ کمزور ہے ، جب بھارت اور ایران کے درمیان اس منصوبے پر دستخط ہوئے تو یہ برملا کہا گیا کہ امریکہ کو بھارت پر کوئی اعتراض نہیں یعنی اس نے امریکی این او سی کا بندوبست کرنے کے بعد ہی اس منصوبے میں ہاتھ ڈالا۔ اسی طرح روس پر بھی امریکی پابندیاں موجود ہیں اور کوئی دوسرا ملک اس سے دفاعی سامان نہیں خرید سکتا مگر بھارت نے یہاں بھی امریکی این او سی حاصل کیا اور جدید ترین جنگی اسلحے کی بڑی کھیپ کا سودا کیا جس میں روسی لڑاکا طیارے اور میزائل شکن نظام تک سبھی کچھ شامل ہیں اس لیے یہ کہنا کہ بھارت کو چاہ بہار سے امریکی پابندیوں کے خدشے کی وجہ سے نکلنا پڑا۔ ایک غلط دعویٰ ہے۔

 اصل میں پاکستان کی خوش قسمتی کا دور شروع ہو رہا ہے اور بھارت کو بدقسمتیوں نے آن گھیرا ہے اور ہمارے گمنام ہیروز چپکے سے اپنا کام مکمل کر رہے ہیں اور بھارت کی انتہا پسندی جلتے پر تیل کا کام کر رہی ہے  پاکستان سے تو پہلے دن سے اس کی لڑائی جاری ہے اور کشمیر پر کئی جنگیں ہو چکی ہیں مگر اب چین سے اختلاف بھارت کی تباہی کا سبب بنیں گے اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ مودی کے سر پر مہا بھارت کا بھوت سوار ہے اور وہ خطے کی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسی بدخوابی میں اس نے چین سے لڑائی مول لے لی اور مار کھائی اور اسی بدخوابی کی وجہ سے نیپال بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسے چھوٹے ملک بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔

 بھارت جس حشر سے دو چار ہے اسے محاورے کی زبان میں کہتے ہیں کہ آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا۔

 بھارت جو پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش میں مصروف تھا۔ اب اپنے ہی دام میں گرفتار ہو کر تنہا ہو گیا ہے۔

پاک آرمی زندہ باد 
آئی ایس آئی زندہ باد 
پاکستان پائندہ باد 

⚔️اکبر⚔️

Comments

Popular posts from this blog

Microsoft’s Edge browser has issued a stunning body-blow to Google Chrome with a bunch of new moves this week.