شاہی قلعہ لاہور میں آئی ایس آئی کے ٹارچر سیل سے ریٹائر ہونے والے حوالدار ماجد اکرام کا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ڈیتھ بیڈ سے ایڈیٹر ڈان ظفر عباس کے نام اعترافی خط
تئیس جولائی 2020
بیڈ نمبر 17
میڈیکل اونکولوجی وارڈ II
سیون اے
بلاک آر تھری
شوکت خام میموریل کینسر
ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر
لاہور 54000
پنجاب۔ پاکستان
ظفر صاحب،
آج جب میں بلڈ کینسر کی لاسٹ سٹیج پہ ہر خوف سے بیگانہ ہو چکا ہوں تو سٹاف نرس سائرہ بھٹی سے یہ خط لکھوا رہا ہوں تا کہ اگر قیامت نکل بھی آئی تو میرے گناہوں کا بوجھ کچھ ہلکا ہو سکے۔جب اختر بیوریجز(پیپسی کو پاکستان)،تاندلیانوالہ شوگر ملز اور سپیرئیر ٹیکسٹائل ملز کے مالک ہمایوں اختر کے والد جنرل اختر عبالرحمان
ضیاء دور میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بنے تو میں ان کا ڈرائیور تھا مگر میرے قد کاٹھ کو دیکھتے ہوئے انھوں نے مجھے آئی ایس آئی لاہور کے شاہی قلعے میں دیوان خاص کی بیسمنٹ میں قائم ٹارچر سیل میں اپوائنٹ کر دیا جہاں میرا کام پیپلز پارٹی والوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلانا تھا۔شروع شروع میں مارتے ہوئے ہچکچاتا مگر جب دیکھا کہ اچھا مارنے والے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں تو میرا ہاتھ بھی رواں ہو گیا۔کبھی ہم سبجیکٹ کے منہ پر پیشاب کرتے،کبھی اس کے ناخن پلاس سے کھینچتے،کبھی اس کے ہاتھ میں کیل گاڑتے،کبھی اس کا یا اس کی بیوی یا بیٹی کا اس کے سامنے ریپ کر کے ویڈیو بناتے،کبھی باتھ ٹب میں دہی اور تیل سمیت ڈال کر اس کے جسم میں کیڑے ڈالتے،کبھی برف کی سلوں پہ لٹا کر ڈنڈے برساتے،کبھی رولر پھیرتے اور کبھی صرف جگا جگا کر پیٹ میں پانی بھر کے ڈنڈے مارتے غرض تشدد کا وہ کون سا طریقہ تھا جو ہم سبجیکٹس پہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے اور آج بھی وہاں سب یہ ہوتا ہے۔ہمیں بتایا جاتا کہ یہ لوگ ملک دشمن ہیں۔بھارت کے جاسوس ہیں۔اسرائیل سے مل کر پاکستان توڑنا چاہتے ہیں تو میں سوچتا کہ جس جنرل یحیٰی اور جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے اصل میں پاکستان توڑا کیا وہ را اور موساد کے ایجنٹ تھے مگر پھر میں خود ہی ایسے سوالات پہ لاحول پڑھ دیتا کیونکہ میرا کام مارنا تھا سوچنا نہیں۔کرنل حفیظ نے وہاں ایلیٹ سکواڈ بنایا ہوا تھا جس میں مجھ سمیت چھ آدمی تھے اور ان کا کام مارنے کے علاوہ سبجیکٹ کا ریپ کرنا بھی تھا جس میں ہمارے چہرے نظر نہیں آتے تھے۔کبھی کبھی تو اتنا کام بڑھ جاتا کہ غسل جنابت کیے بغیر ہی جمعے یافجر کی نماز پڑھنی پڑھتی مگر وہ کیا کہتے ہیں نا کہ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم،ڈی ایچ اے بنانے کے لئے مالک کسانوں،سیاست دانوں،پشتون تحفظ موومنٹ،بلوچوں،سلمان حیدر،وقاص گورائیہ،عاصم سعید،اوکاڑہ کے شفیق احمد ایڈوکیٹ اور دیگر وکلاء اور نیوز ایڈیٹرز جن میں آپ بھی شامل تھے,مشعال خان جیسے یونیورسٹی سٹوڈنٹس،پبلشرز،سندھ کے قوم پرست،افسران کے ذاتی مخالفین،حبیب جالب جیسے شاعر اور سبط حسن جیسے مصنفین غرض ہر اس شخص کا سافٹ وئیر اپڈیٹ کرنا میرے فرائض منصبی میں شامل تھا جو مکہ کی جگہ راولپنڈی کی جانب سجدہ کرنے سے انکار کرتا تھا ۔اب احساس ہوتا ہے کہ شرک تھا مگر جوانی اور طاقت کے نشے میں تب خیال نہیں آیا۔صلہُ یزید کیا ہے تب و تاب جاودانہ۔ایک دن مجھے پتہ چلا کو عضو تناسل کے بہہمانہ استعمال سے مجھے آتشک کا مرض لاحق ہو گیا ہے تو خود سے گھن آنی شروع ہو گئی۔سی ایم ایچ لاہور میں میرا تین ماہ تک علاج ہوتا رہا اور جب میں نے ڈیوٹی واپس جوائن کی تو مجھے ایلیٹ سکواڈ سے نکال کر سپیشل ٹارچر سکواڈ میں تعینات کر دیا گیا۔ایک دن ایک سبجیکٹ کی انگلی کاٹ کر واپس آیا تو دفتر میں خون کی الٹی آئی۔میں سمجھا کہ پیٹ خراب ہو گا مگر چیک کروانے پہ پتہ چلا کہ بلڈ کینسر کی لاسٹ سٹیج ہے۔آج جب میری تمام تر توانائی تکلیف دہ کیموتھراپی سیشنز ڈرین کر چکے ہیں تو یہ خط لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا خیال آیا۔مجھے احساس ہے کہ یہ خط آپ ڈان کے لیٹر ٹو ایڈیٹر سیکشن میں تو نہیں چھاپ سکتے مگر اگر کبھی میری طرح آپ کو بھی ملک الموت نظر آنے لگے تو فیسبک وال یا ٹوئٹر پہ ڈال جائیے گا۔اس سے بہت سے مزید لوگ اس آستین کے سانپ سے باخبر ہو جائینگے جو کہتا خود کو مارخور ہے مگر ہے پکا حرامخور۔اگر آپ کے جواب سے پہلے مر گیا تو یہ خط اپنے جواب سمیت اپلوڈ کیجئے مناسب وقت آنے پر۔ایسے ہی ایک ایتھیسٹ کی دعا یاد آ گئی اوہ گاڈ اف دئیر از گاڈ بلیس مائی سول اف دئیر از سول۔
موت کے ہاتھوں ہارتا
حوالدار(ر) ماجد اکرام
No comments: