#قلمکار
#تعمیرکردار
سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا
🍁برداشت🍁
یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے، یہ بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے، سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا۔۔
یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا یا دھمکی دیتا تھا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا اس طالب علم کو فوراً اس درسگاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔
سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ھے،
سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ھے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو
معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ھے۔
اس کا کہنا تھا اختلاف، دلائل اور منطق، پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے، یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ھے۔
لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ھے۔۔
وہ کہتا تھا کوئی عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے،وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔
(اقتباس)
ہمارے معاشرے میں بھی فقط اسی برداشت کی کمی ہے۔لمحہ بھر میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔
اللہ ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔آمین امجد علی محمود
No comments: