بابو رجب علی پنجابی زبان کے ایک عظیم شاعر اور اوکاڑہ میں مدفون ہیں لیکن پاکستان میں ایسے باکمال شخص کی بے توقیری کا یہ عالم ہے کہ ان کی قبر کا کتبہ بھی انتقال کے 41 برس بعد حال ہی میں نصب کیا گیا ہے اور وہ بھی ان کے چاہنے والوں نے انڈیا سے بھیجا ہے جہاں وہ اس قدر محترم ہیں کہ لوگ ان کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں۔
نیوز ویب سائٹ سجاگ کی ایک رپورٹ کے مطابق بابو رجب علی 6 جون 1894 کو انڈین ضلعے موگہ کے گاؤں ساہوکے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت وہ پاکستان آئے اورسن 1979 میں پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے جنوب میں لگ بھگ 11 کلومیٹر کی مسافت پر واقع گاؤں 2/32 ایل میں دفن ہوئے۔
بابو رجب علی کی پوتی ریحانہ شمشیر نے بتایا کہ قبر پر نصب کی جانے والی 2 تختیوں میں سے ایک پر گرمکھی جبکہ دوسری پر شاہ مکھی میں لکھا ہے: ’عظیم پنجابی شاعر بابو رجب علی‘۔ ان پر ان کی ولدیت، تاریخ و جائے پیدائش اور تاریخ وفات بھی درج ہے۔
بابو رجب علی پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے اور سرکاری ملازمت کرتے تھے۔ ان کے والد رانا دھمالی خان بھی چونکہ شاعر تھے لہذا یہ شوق انہیں وراثت میں ملا تھا۔ بابو رجب علی نے اپنی شاعری میں پنجاب کی دیہاتی زندگی، روحانیت اور اسلام، ہندو مذہب اور سکھ ازم کے مذہبی موضوعات کا احاطہ کیا ہے جو سکھوں میں ان کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ ہے۔
انڈین پنجاب میں بابو رجب علی کے شاعری میں لکھے گئے 86 قصے کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں۔ انڈیا سے سکھ یاتری بھی وقتاً فوقتاً ان کی قبر پر ماتھا ٹیکنے اوکاڑہ آتے رہتے ہیں۔
انڈین پنجاب کی حکومت نے ان کے آبائی گاؤں کا نام بدل کر بابو رجب علی ساہوکے نگر رکھ دیا ہے اور وہاں واقع ان کے آبائی گھر کو ثقافتی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ وہاں ایک سالانہ میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے جو 6 دن جاری رہتا ہے۔ اس میلے میں پنجاب بھر کے لوک گلوکار بابو جی کا کلام پڑھتے ہیں۔
انہی گلوکاروں میں ایک پنجاب کے مشہور لوک گائیک کنور گریوال ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ بابو رجب کا کلام پڑھ کر ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ بابو جی پنجابی ادب کا بہت بڑا نام ہیں اور انھوں نے کوی شری (پنجابی شاعری) کو وہ جلا بخشی ہے جو کوئی دوسرا نہیں بخش سکا۔
لیکن پاکستان میں بابو رجب علی کی گمنامی کا یہ عالم ہے کہ ان کو قبر کا کتبہ بھی ان کے مرنے کے 41 برس بعد نصب کیا جا رہا ہے اور یہ بھی ان کے چاہنے والوں نے انڈیا سے بھیجا ہے۔
ریحانہ شمشیر کے بقول دادا جی پاکستان تو آ گئے لیکن ان کی روح موگے میں رہ گئی لہذا انہوں نے یہاں آکر زیادہ شاعری نہیں کی اور گمنامی میں چلے گئے۔
انڈیا میں 9 محقق بابو رجب علی کے کلام پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور درجن بھر ابھی کر رہے ہیں۔ ان کے کلام کو پنجاب کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
گورنمنٹ برجیندر کالج فریدکوٹ کے پروفیسر ڈاکٹر نریندر جیت سنگھ براڑ کا کہنا ہے کہ بابو رجب کا کلام پنجابی ادب کے ماتھے کا جھومر ہے، انڈین اور پاکستانی پنجاب کے لوگ ان کا احسان نہیں چکا سکتے۔
ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر محقق اور پروفیسر ڈاکٹر آتم ہمراہی نے ’انوکھا رجب علی‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جبکہ انڈین پنجاب کے شہر بھٹنڈہ کے ایک کوی شر (لوک گائیک) سکھوندر سنگھ نے اس شاعر پر آ8 چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھی ہیں جن میں انوٹھا رجب علی، انکھی رجب علی، رنگیلا رجب علی، البیلا رجب علی، انکھیلا رجب علی اور اٹکھیلا رجب علی شامل ہیں۔ یہ تمام کتابیں گُرمکھی میں شائع ہوئی ہیں۔
پاکستان میں بابو رجب علی کے بارے میں تحقیق کرنے والا واحد نام لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر ریاض شاہد کا ہے جنہوں نے سن 2018 میں چھپنے والی اپنی کتاب ’مانک موتی‘ میں اس گمنام شاعر کی زندگی کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے۔
‘بابو رجب دی قسم جے میں جھوٹھ بولاں’
لاہور میں رہنے والے پنجابی کے محقق مقصود ثاقب کہتے ہیں کہ بابو جی انڈین پنجاب میں اس قدر محترم ہیں کہ لوگ ان کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں، وہ بات بات پر کہتے ہیں: مینوں بابو رجب دی قسم جے میں جھوٹھ بولاں۔
مقصود ثاقب کے مطابق پاکستان میں بابو رجب علی کی گمنامی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے یہاں آکر زیادہ شاعری نہیں کی دوسرا یہ کہ ان کی شاعری پنجابی کے مالوی لہجے میں ہے جسے پاکستانی پنجاب کے لوگ نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ ان کا کلام بھی چونکہ گرمکھی میں شائع ہوا ہے لہذا یہاں کا پنجابی اسے پڑھ نہیں سکتا۔
اس کے باوجود مقصود ثاقب کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بابو رجب علی ایک بڑے شاعر تھے۔ ان کا کلام شاہ مکھی میں بھی چھپنا چاہیے اور ان کو پاکستان میں بھی وہ عزت و تکریم ملنی چاہیے جو ان کا حق ہے۔
نوٹ: یہ مضمون اوکاڑہ کے عبدالجبار نے تحریر کیا اور اس کی تیاری میں لاہور سے آصف ریاض نے بھی معاونت کی۔
No comments: