کراچی کے لال محمد جنھیں ایک کبوتر دیوارِ چین لے گیا

  • ریاض سہیل
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
لال محمد

لال محمد کو کبوتر پالنے کا شوق تو بچپن سے تھا لیکن اُن کی چھت پر کوئی لکی کبوتر اترے گا اور وہ اس کے باعث دیوار چین پہنچ جائیں گے، یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

یہ آٹھ ستمبر 1984 کی بات ہے جب روٹری کلب کراچی میں عوامی جمہوریہ چین کی 35ویں سالگرہ کی تقریب منعقد کی گئی جس میں چین کے قونصل جنرل وانگ ویرسان نے 35 کبوتر فضا میں چھوڑے۔

ان کبوتروں میں سے ایک کبوتر کے پیر میں ایک ٹوکن باندھا گیا تھا جس میں یہ تحریر موجود تھی کہ 35 گھنٹوں میں جو بھی اس 'لکی کبوتر' کو پکڑ کر لائے گا اس کے کراچی تا بیجنگ فضائی سفر کے ٹکٹس اور چین میں قیام کے تمام اخراجات سرکاری طور پر برداشت کیے جائیں گے۔

لکی کبوتر کی لال محمد کی چھت پر لینڈنگ

لال محمد بلوچ لیاری کی سیفی لائن کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے چھت پر کئی اقسام کے کبوتر پال رکھے ہیں، یہ شوق وہ بچپن سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِس وقت وہ فالج کے مرض میں مبتلا ہیں اور دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں۔

بی بی سی سے تفصیلات شیئر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ روزانہ صبح سویرے چھت پر چلے جاتے اور کبوتروں کو دانہ پانی ڈالتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’اس روز میں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کا اجنبی کبوتر چھت پر موجود ہے، جو میرا نہیں تھا۔ یہ بیٹھا اور تھوڑی دیر کے بعد اڑ گیا۔‘

انھوں نے اپنے پالتو کبوتروں کی مدد سے اس سفید کبوتر کو نیچے اتارا اور پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا۔

یہ تو کلب کا کبوتر ہے

لال محمد صبح کو بچوں کو سکول چھوڑ کر پھر اپنی ملازمت پر جاتے تھے۔ اس روز انھیں تاخیر ہوگئی اور بچے سکول نہیں جا سکے۔ لال محمد کی بیوی نے بتایا کہ اس روز وہ کافی ناراض ہوئیں تھیں کیونکہ ناشتہ ٹھنڈا ہو چکا تھا اور بچے سکول جانے کے لیے تیار بیٹھے تھے، لیکن لال محمد دیر سے چھت سے نیچے اترے۔

’میں بہت ناراض ہوئی تو انھوں نے (لال محمد) کہا کہ انھوں نے ایک کبوتر پکڑا ہے جس کو فضا سے چھت پر اتارنے میں ڈھائی گھنٹے کا وقت لگ گیا۔ ان کے ہاتھوں میں ایک ٹوکن تھا جس میں سفید اور سرخ کپڑا تھا اور اس پر ’پاک چین دوستی زندہ آباد، روٹری کلب‘ لکھا تھا۔ میں نے پڑھ کر کہا کہ یہ کسی کلب کا کبوتر ہے اور انھوں نے اس لیے باندھا ہے تاکہ کوئی کبوتر باز اس کو نہ پکڑے، لیکن تم نےاس کو پکڑ لیا ہے۔ میں نے یہ ٹوکن زمین پر پھینک دیا۔‘

لال محمد کراچی پورٹ ٹرسٹ میں میکنک تھے جہاں سے اب وہ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اس روز بھی کبوتر کو بند کر کے وہ صبح کو ملازمت پر چلے گئے۔

انعامی ٹوکن کی تلاش

لال محمد اس روز بھی معمول کے مطابق دوپہر کو تین بجے کے قریب کھانا کھانے گھر لوٹ رہے تھے تو راستے میں ان کے ایک دوست رمضان نے بتایا کہ چین کے سفیر نے ایک کبوتر چھوڑا ہے، جس میں انعامی ٹوکن ہے۔

لال محمد نے اس کو بتایا کہ اس نے ایک کبوتر پکڑا ہے جس میں سے بھی پرچی نکلی تھی۔ تاہم اس نے ٹوکن میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

لال محمد نے ٹوکن کے بارے میں پوچھا تو انھیں بتایا گیا کہ وہ تو زمین پر پھینک دیا تھا۔ جلد ہی انعامی ٹوکن کی خبر رشتے داروں کو بھی مل گئی اور سب لوگ لال محمد کے گھر جمع ہو گئے اور ٹوکن کی تلاش شروع کر دی۔

لال محمد کی اہلیہ حنیفہ لال محمد بتاتی ہیں کہ ’میں نے کہا کہ خبردار میرے گھر کی کوئی چیز اِدھر اُدھر نہیں کرنا، جو جہاں ہے وہاں رکھنا، جہنم میں جائے ٹوکن۔‘

’سب ڈھونڈتے رہے میں نے الماری کے اوپر ہاتھ لگایا تو اخبار کے نیچے سے وہ ٹوکن نکل آیا جو بعد میں پتہ چلا کہ میری بیٹی نے زمین سے اٹھا کر الماری کے اوپر رکھ دیا تھا۔‘

روٹری کلب کی تلاش

لال محمد اپنے ساتھ رمضان کو لے گئے اور صدر کے علاقے میں روٹری کلب تلاش کرتے رہے۔ حنیفہ (لال محمد کی اہلیہ) کے مطابق انھیں کوئی نہیں مل رہا تھا، ایک جگہ ایک بزرگ ملے جنھوں نے کہا کہ 36 گھنٹے گزرنے والے ہیں، وقت ختم ہونے کو ہے۔ بزرگ نے انھیں مشورہ دیا کہ ’جنگ پریس‘ چلے جائیں۔

دونوں افراد کبوتر سمیت جنگ پریس پہنچے اور انھیں بتایا کہ انعامی کبوتر انھیں ملا ہے۔ انھوں نے تصویر بنائی جو اگلے ہی روز انگریزی، اُردو اور سندھی زبان کے اخباروں میں شائع ہو گئی اور سفارتخانے والوں کو بھی معلوم ہوگیا۔

حنیفہ بتاتی ہیں کہ دوسرے روز کئی سو پولیس اہلکار ان کی گھر کے آس پاس پہنچ گئے۔ 'پڑوسی پریشان ہوگئے کہ لالو گھر سے ملازمت پر جاتا ہے اور وہاں سے سیدھا گھر آتا ہے، یہ کیا معاملہ ہوگیا۔ پھر پتہ چلا کہ انعامی ٹوکن نکلا ہے۔'

سمجھ لو تم چین پہنچ گئے

لال محمد کےگھر چینی سفارتخانے کے لوگ بھی آئے جس کے بعد ان کو ملاقات کے لیے سفارتخانے مدعو کیا گیا۔ دو روز کے بعد وہ چین کے سفارتخانے پہنچے جہاں قونصل جنرل وانگ نے لال محمد سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کی شائع ہونے والی خبر کے مطابق سفیر نے انھیں ہدایت کی کہ وہ چین کے سفر کے لیے سفارتخانے سے رابطہ کریں اور ساتھ میں یہ کہا کہ ’سمجھ لو کہ تم چین پہنچ گئے۔‘

لال محمد یہ سوچ کر پریشان تھے کہ چین تو جائیں گے لیکن اخراجات کا کیا ہو گا؟

کراچی میونسپل کارپوریشن کے اس وقت کے میونسپل کونسلر باری جیلانی نے لال محمد کی مدد کا اعلان کیا اور ساتھ میں ایک اعلامیہ جاری کیا جس کی کاپی آج بھی لال محمد کے پاس محفوظ ہے۔

اس اعلامیے میں باری جیلانی لکھتے ہیں کہ لال محمد کی مالی کمزوری کی بنا پر اس کا چین جانا التو میں پڑنے کا خطرہ ہے، اس طرح ایک محنت کش اپنے پڑوسی عظیم ملک، جو محنت کشوں کا مرہون منت ہے، جانے اور ان سے ملاقات کا موقع شاید کھو دے، لہذا وہ اپنے علاقے کے عوام کی جانب سے نہ صرف زاد راہ اور ایک عدد پاکستان کا مکمل قومی لباس انھیں پیش کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ ملک کی شایان شان نمائندگی کر سکیں۔

روٹری کلب نے مقامی ہوٹل میں لال محمد کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا جس میں انھیں چیک دیا گیا اور یوں ان کا پاسپورٹ بنا اور اس پر چین کے ویزے کا سرخ پرنٹ لگ گیا۔

چین روانگی اور سیاحت

لال محمد سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے جہاں انھوں نے سرکاری ریڈیو کا دورہ کیا اور ملاقاتیں کیں۔ انھیں چینی مترجم بھی فراہم کیا گیا تھا۔ لال محمد پر فالج پر حملے کی وجہ سے اب ان کی یادداشت کمزور ہو چکی ہے۔

وہ بتاتے ہیں وہ ماؤ زے تنگ کی یادگار، دیوار چین، میوزیم گئے تھے۔ یوں ایک ہفتے کے سرکاری دورے کے بعد وہ کئی یادیں لیے پاکستان واپس آگئے۔

ان کے پاس اس دورے کی تصاویر دستیاب نہیں صرف چند ایک بروشر ہیں جن میں پورٹ اور میوزیم کا تعارف موجود ہے۔ حنیفہ لال محمد کا کہنا ہے کہ تصاویر چینی سفارتخانے والے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور کہا تھا کہ وہ ان کو محفوظ رکھیں گے۔

لال محمد بتاتے ہیں کہ چین میں وہ زیادہ تر سفر ٹرین میں کرتے تھے اور کھانا وہ ہی کھاتے تھے جو انھیں ملتا تھا، الگ سے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے زندگی میں بیرون ملک کا صرف یہ ہی ایک سفر کیا۔

چین نے وعدہ کیا تھا

حنیفہ لال محمد کا دعویٰ ہے کہ چینی سفیر نے ان سے معلوم کیا تھا کہ انھیں کیا چاہیے؟ تو انھوں نے کہا تھا کہ انھیں مکان بنوا دیں۔ بقول ان کے سفیر نے وعدہ کیا تھا کہ بچوں کی تعلیم اور بعد میں ملازمت کی ذمہ داری وہ اٹھائیں گے۔ تاہم چینی سفارتخانہ اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔

لیاری کی سیف گلی میں گمنامی کی زندگی گزارنے والے لال محمد کے نو بچے ہیں، ریٹائرمنٹ سے ملنے والی رقم سے انھوں نے اپنا مکان تعمیر کرایا مگر اب وہ مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اب ان کا خاندان کسی اور لکی کبوتر کا منتظر ہے۔