http://mirzawaseembaig.blogspot.com
۔ (۱۲۵۰۷)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: أَکْثَرْنَا الْحَدِیثَ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ ثُمَّ غَدَوْنَا إِلَیْہِ، فَقَالَ: ((عُرِضَتْ عَلَیَّ الْأَنْبِیَائُ اللَّیْلَۃَ بِأُمَمِہَا، فَجَعَلَ النَّبِیُّیَمُرُّ وَمَعَہُ الثَّلَاثَۃُ، وَالنَّبِیُّ وَمَعَہُ الْعِصَابَۃُ، وَالنَّبِیُّ وَمَعَہُ النَّفَرُ، وَالنَّبِیُّ لَیْسَ مَعَہُ أَحَدٌ، حَتّٰی مَرَّ عَلَیَّ مُوسٰی مَعَہُ کَبْکَبَۃٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، فَأَعْجَبُونِی فَقُلْتُ: مَنْ ہٰؤُلَائِ؟ فَقِیلَ لِی: ہٰذَا أَخُوکَ مُوسٰی مَعَہُ بَنُو إِسْرَائِیلَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَیْنَ أُمَّتِی؟ فَقِیلَ لِیَ: انْظُرْ عَنْ یَمِینِکَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا الظِّرَابُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوہِ الرِّجَالِ، ثُمَّ قِیلَ لِیَ: انْظُرْ عَنْ یَسَارِکَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوہِ الرِّجَالِ، فَقِیلَ لِی: أَرَضِیتَ؟ فَقُلْتُ: رَضِیتُیَا رَبِّ، رَضِیتُیَا رَبِّ، قَالَ: فَقِیلَ لِی: إِنَّ مَعَ ہَؤُلَائِ سَبْعِینَ أَلْفًا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : فِدًا لَکُمْ اَبِیْ وَاُمِّیْ ٔوَأُمِّی إِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَکُونُوا مِنَ السَّبْعِینَ الْأَلْفِ فَافْعَلُوا، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ فَکُونُوْا مِنْ أَہْلِ الظِّرَابِ، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ فَکُونُوا مِنْ أَہْلِ الْأُفُقِ، فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ ثَمَّ نَاسًا یَتَہَاوَشُونَ۔)) فَقَامَ عُکَاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: ادْعُ اللّٰہَ لِییَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنَ السَّبْعِینَ، فَدَعَا لَہُ، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: ادْعُ اللّٰہَیَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((قَدْ سَبَقَکَ بِہَا عُکَاشَۃُ۔)) قَالَ: ثُمَّ تَحَدَّثْنَا فَقُلْنَا: مَنْ تَرَوْنَ ہٰؤُلَائِ السَّبْعُونَ الْأَلْفُ، قَوْمٌ وُلِدُوا فِی الْإِسْلَامِ لَمْ یُشْرِکُوا بِاللّٰہِ شَیْئًا حَتّٰی مَاتُوا، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((ہُمْ الَّذِینَ لَا یَکْتَوُونَ، وَلَا یَسْتَرْقُونَ، وَلَا یَتَطَیَّرُونَ، وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔)) (مسند احمد: ۳۸۰۶)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ایک رات ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کا فی دیر تک باتیں کیں، پھر جب صبح کو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آج رات تمام انبیاء اور ان کی امتیں میرے سامنے پیش کیے گئے، کسی نبی کے ساتھ تین آدمی تھے، کسی کے ساتھ چھوٹی سی جماعت، کسی کے ساتھ چھوٹا سا گروہ تھا اور کچھ نبی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ میرے سامنے سے موسیٰ علیہ السلام گزرے اور ان کے ساتھ بنو اسرائیل کی ایک بڑی جماعت تھی، وہ لوگ مجھے بڑے اچھے لگے،میں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ مجھے بتلایا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی قوم بنو اسرائیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے پوچھا کہ میری امت کہاں ہے؟ مجھ سے کہا گیا کہ آپ اپنی دائیں جانب دیکھیں، میں نے دیکھاتو وہاں ایک بہت بڑا ہجوم ساتھا، جو لوگوں کے چہروں سے بھر ا ہوا تھا، پھر مجھے کہا گیا: اپنی بائیں جانب دیکھیں، میں نے دیکھا تو اس طرف والا افق لوگوں سے بھرا ہوا تھا، پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب راضی ہیں؟ میں نے کہا: جی میں راضی ہوں، اے میرے رب! میں راضی ہوں، اے میرے ربّ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان امتیوں کے ساتھ ستر ہزار لوگ ایسے ہیں، جو حساب کے بغیر جنت میں جائیں گے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے ماں باپ تم لوگوں پر فدا ہوں، اگر ہوسکے تو تم ان ستر ہزار میں سے بننے کی کوشش کرو اور اگر اس قدرمحنت نہ ہو سکے تو کم از کم اس ہجوم والوں میں سے ہی بننے کی کوشش کرو اور اگر اتنا بھی نہ ہوسکے تو افق والوں میں سے بننے کی کوشش کرو، میں نے وہاں کچھ لوگوں کو دھکم پیل کرتے بھی دیکھا ہے۔ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ اٹھے اور انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان ستر ہزار والوں میں سے مجھے بھی بنا دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی، اتنے میں ان کے بعد ایک اور آدمی کھڑ اہوا اور اس نے بھی یہی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عکاشہ رضی اللہ عنہ تم سے سبقت لے گیا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر ہم باتوں میں مصروف ہوگئے اور ہم نے کہا کہ اس بارے میں کیا خیال ہے کہ یہ ستر ہزار آدمی کون ہوسکتے ہیں، کیا یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے اور پھر مرتے دم تک شرک کے قریب نہیں گئے؟ جب یہ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں، جو نہ زخموں کو داغتے ہیں،نہ دم جھاڑ کرتے ہیں اور نہ بد فالی یا بد شگونی لیتے ہیں، بلکہ اپنے رب پر مکمل توکل کرتے ہیں۔
۔ (۱۲۵۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: ((خَیْرُکُمْ قَرْنِی ثُمَّ الَّذِینَیَلُونَہُمْ۔)) قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ: لَا أَدْرِی ذَکَرَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ((ثُمَّ خَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ قَوْمٌ یُحِبُّونَ السَّمَانَۃَ،یَشْہَدُونَ وَلَا یُسْتَشْہَدُونَ۔)) (مسند احمد: ۱۰۲۱۴)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے میرا زمانہ سب سے بہتر ہے، پھراس کے بعد والا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو بار اس چیز کا ذکر کیا یا تین بار، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے، جو موٹاپے کو پسند کریں گے اور بغیر گواہی طلب کیے وہ گواہیاں دیں گے۔
Musnad Ahmed#12522
Status: صحیح