بات سے بات: بلوچستان کو بھی بالاخر تصویر مل گئی
اگر ہم بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ہسپانوی خانہ جنگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تو کوئی بات نہیں۔پکاسو کی پینٹنگ گورنیکا دیکھ لیں یا پھر وہ فوٹو جس میں جنرل فرانکو کے فاشسٹ فائرنگ سکواڈ کے سامنے ہسپانوی شاعر و ڈرامہ نگار فیدریکو گارسیا لورکا موت سے چند سیکنڈ پہلے سینہ تانے نعرہ زن کھڑے ہیں۔آپ کو سب سمجھ میں آ جائے گا کہ دراصل سپین پر کیسی سفاکی ٹوٹی ہو گی۔
ہٹلر نے کنسنٹریشن کیمپوں میں یہودیوں کے ساتھ کیا کیا۔اس کی داستان اس ایک تصویر میں سمٹ کر رھ گئی جس میں قیدیوں کے دھاری دار یونیفارم پہنے بیسیوں یہودی مردوں ،عورتوں اور بچوں کے زندہ ڈھانچے خاردار تاروں کے دوسری جانب کھڑے آزادی کے منتظر ہیں۔
ویتنام کی جنگ کتنی تباہ کن تھی ۔ہزاروں میل پرے ڈرائنگ روموں میں ٹی وی کے روبرو بیٹھ کر اس کا ہرگز اندازہ نہ ہوتا اگر مائی لائی نامی دیہات پر امریکی نیپام بموں کی بارش سے دھشت زدہ بھاگتے عریاں بچوں کی تصویر سامنے نہ آتی۔اس ایک تصویر نے اس جنگ کے خلاف عالمگیر مظاہروں کو ایڑ لگا دی۔
یہ بھی پڑھیے
قرنِ افریقہ میں انیس سو اسی کی دہائی میں خوفناک قحط پڑا ۔اس قحط پر ہزارہا لفظ لکھے گئے ۔کئی امدادی کنسرٹس بھی ہوئے ۔مگر جنوبی سوڈان کی بس ایک تصویر نے دراصل بتایا کہ قحط ہوتا کیا ہے ۔تصویر میں ایک فاقہ زدہ بچے کا ڈھانچہ آخری سانسیں لے رہا ہے اور قریب بیٹھا ایک بے چین گدھ یہ سانسیں گن رہا ہے۔
انیس سو نواسی میں بیجنگ کے تئین آن من اسکوائر میں کیسی مزاحمت ہوئی ۔اس کا منظر صرف ایک تصویر میں سمٹ کر آ گیا جس میں ایک نہتا شہری آتے ہوئے ٹینکوں کی قطار کے سامنے کھڑا ہے ۔
شام کی خانہ جنگی میں انسان پر کیا قیامت گذر گئی ۔اس بارے میں بیسیوں تصاویر سامنے آئیں ۔مگر ترکی کے ساحل پر چار سالہ شامی بچے ایلان الکردی کی اوندھی پڑی لاش نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا اور یورپ کو شامی پناہ گزینوں کے لئے دروازے کھولنے پڑے۔
کشمیر کے المیے کی تمام تصویریں اگر غائب بھی ہو جائیں تب بھی صرف ایک تصویر کشمیر کا نوحہ بیان کرنے کے لئے کافی ہے ۔سوپور کی ایک سڑک پر ایک تین سالہ بچہ اپنے دادا کی خون آلود لاش کے سینے پر حیران بیٹھا ہے۔
بلوچستان کے لاپتہ افراد کی تصاویر مظاہروں اور ہڑتالی کمپیوں میں اتنی بار دیکھنے کو ملتی ہیں کہ اب عادت سی ہو گئی ہے۔ نواب نوروز خان سے نواب اکبر بگٹی کے آخری دنوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر تھوڑے تھوڑے عرصے بعد نمودار ہوتی رہتی ہیں۔
مگر تیرہ اگست کو تربت کی ایک سڑک پر جواں سال حیات بلوچ کو جس طرح مارا گیا اور اس کے والدین جس کیفیت میں لاش پر سایہ فگن ہیں۔ بلوچستان سے نابلد کسی بھی شخص کو پوری کہانی سمجھانے کے لئے یہ تصویر کافی ہے۔
کچھ عرصے پہلے تک امید تھی کہ شاید بلوچستان کا مسئلہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر سیاسی انداز میں حل کر لیا جائے گا۔ مگر اس کے لئے دماغ بھی توسیاسی چاہئے۔ فی زمانہ چہار جانب شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے ایسے روبوٹ گھوم رہے ہیں جو ہمدردی کی اداکاری سے بھی نابلد ہیں۔ جن کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے انھیں ہر مسئلہ کیل نظر آ رہا ہے۔
اس وقت بلوچستان کا سب سے مظلوم طبقہ نہ تو لاپتہ افراد کے لواحقین ہیں اور نہ ہی عدم تحفظ و محرومی سے دوچار نوجوان نسل۔ سب سے قابلِ رحم وفاق نواز بلوچستانی سیاستدان ہیں۔ مگر وفاق نے ان کی سیاسی لاج رکھنے کے بجائے انہیں اپنوں ہی کی نظر میں دھوبی کا کتا بنا دیا۔
نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن میں جکڑا یہ وفاق پسند طبقہ کس ذہنی ازیت و خلفشار کی سان پر چڑھا ہوا ہے ۔اس کی ایک جھلک بلوچستان کے گذشتہ وزیرِ اعلی اور عمران خان کے سابق اتحادی اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے حالیہ خطاب میں دیکھی جا سکتی ہے ۔فرماتے ہیں ،
" کشمیر کے لیے کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔کشمیر تو جب ملے گا تب ملے گا۔ یہ جو ہاتھ سے جا رہا ہے اس کے لیے تو کوئی کمیٹی بناؤ ۔اس ایوان میں آٹا ، چینی ، ٹماٹر تو زیرِ بحث آتا ہے مگر بلوچ کا خون زیرِ بحث نہیں آتا۔ کیا اس کے خون کا رنگ ٹماٹر سے بھی زیادہ خراب ہے ۔اسے آپ نے اپنایا ہی نہیں بلکہ کالونی سمجھا ہے۔
اگر افغانستان امن کانفرنس بلائی جا سکتی ہے تو بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں ہو سکتی ۔یا پھر یوں کریں کہ آئین میں ترمیم کر کے مقبوضہ یا مفتوحہ بلوچستان لکھ دیں۔اس کے بعد ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہیں رہے گا۔ہم اپنے لواحقین کو کہہ سکیں گے کہ اپنی لاشیں خاموشی سے دفناتے رہو ۔یہ تم پر خدا کا عذاب ہے اسے سہتے رہو "۔
مجھے اختر مینگل کی یہ تقریر سن کر بنگال کے وفاق پرست ڈاکٹر اے ایم مالک ، عبدلمنعم خان ، فضل القادر چوہدری ، پروفیسر غلام اعظم ، عبدالجبار خان ، راجہ تری دیورائے ، خواجہ خیر الدین ، خان عبدالصبور ، مولوی فرید احمد ، محمود علی ، نور الامین وغیرہ یاد آ رہے ہیں۔
No comments: