کراچی کا چڑیا گھر: نباتاتی باغ جو پاکستان کے سب سے گنجان آباد شہر کے لیے ’آکسیجن کی فیکٹری‘ سے کم نہیں

  • شبینہ فراز
  • صحافی
بوٹینیکل گارڈن
،تصویر کا کیپشن

اس برگد سے گذشتہ دو صدیوں میں 9 درخت بن چکے ہیں، حتی کہ کچھ جڑوں نے تو دوسری عمارت تک پہنچ کر وہاں ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے

روایت کے مطابق گوتم بدھ کو ’نروان‘ برگد کے درخت کے نیچے ملا تھا جبکہ کچھ روایات میں املی اور کچھ میں انجیر کے درخت کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا عقیدہ ہے کہ سیتا نے اپنی پارسائی کی گواہی دینے پر برگد کو دعا دی تھی اور ہندوﺅں کا ماننا ہے کہ اسی لیے یہ درخت بڑھتا رہتا ہے۔

برگد کے درخت کو تمام مذاہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے اسے صوفی یا درویش درخت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ برگد کا درخت جہاں بھی اگتا ہے وہاں اپنا پورا خاندان تشکیل دیتا ہے۔

ایسا ہی ایک پھلتا پھولتا برگد کا درخت آپ کراچی میں بھی دیکھ سکتے ہیں جو دو صدیاں گزار کر کم و بیش ایک ہزار گز سے زائد رقبے پر پھیل چکا ہے اور اس ایک درخت سے اب تک مزید نو درخت بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ درخت کراچی کے گنجان آباد علاقے کے ایک نباتاتی باغ میں موجود ہے۔

یہ باغ اس علاقے میں دھواں، شور اور بے ہنگم ٹریفک کے درمیان 43 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں دو ہزار سے زائد درختوں کا ذخیرہ موجود ہے۔

لوگ عموماً اس باغ کو چڑیا گھر یا گاندھی گارڈن کے نام سے جانتے ہیں۔

جانوروں کی موجودگی اگرچہ اب اس جگہ کی پہچان ہے اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر یہ جگہ ایک نباتاتی باغ کے لیے مخصوص تھی اور اب بھی یہاں دو ہزار سے زائد تناور درختوں کا ذخیرہ موجود ہے جو بدلتے موسموں سے لڑتے کراچی کے لیے کسی آکسیجن کے کارخانے سے کم نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

باغ کی تاریخ

اس نباتاتی باغ کی جائے پیدائش کو کھوجنے کے لیے اگر ہم تاریخ کے صفحات پلٹیں تو اس جگہ ہمیں باغ کے ہی شواہد ملتے ہیں جنھیں دو صدی قبل عام لوگ سرکاری باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس باغ کی شناخت بدلتی رہی۔

سرکاری باغ سے وکٹوریہ کوئین گارڈن، پھر گاندھی گارڈن، کراچی زو اور اب اس کا پورا نام ’کراچی زولوجیکل اینڈ بوٹینیکل گارڈن‘ ہے اور درختوں کے متوالوں، نباتات کے طالب علموں، ماہرین ماحولیات اور محققین کے لیے آج بھی یہ بطور ’بوٹینیکل گارڈن‘ کشش کا باعث ہے۔

نباتاتی باغ کس حال میں ہے؟

کراچی چڑیا گھر میں داخل ہوں تو درختوں کی اہمیت کا احساس زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔ باہر درجہ حرارت 40 کو چھو رہا تھا لیکن باہر کی شدید گرمی کے باوجود اندر چاروں جانب ایک ٹھنڈک سی محسوس ہورہی تھی۔

بلند و بالا اشجار کی گھنی چھتری دھوپ کو کہیں اوپر ہی روک رہی تھی۔ ماحول میں خنکی اور ایک فطری سکوت کا احساس نمایاں تھا۔

ادارے سے بطور ہارٹی کلچرسٹ وابستہ ضامن عباس کے مطابق یہاں 2,311 بالغ درخت موجود ہیں جبکہ چھوٹے درخت اور پودے لا تعداد ہیں۔ ہر درخت کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال سے پرانی یا اس سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔

اگرچہ سائنسی طور پر کسی بھی درخت کی عمر معلوم کرنے کے لیے اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے مگر ان درختوں کے وسیع و عریض تنے، چوڑائی اوربلندی ان کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔

،تصویر کا کیپشن

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہے

برگد کا قدیم درخت

ضامن عباس نے ہمیں برگد کا وہ درخت دکھایا جس کی عمر 200 سال سے زیادہ ہے۔ برگد کا درخت پرانا ہونے پر اس کی جڑیں اوپر کی شاخوں سے پھوٹ پڑتی ہیں اور نیچے زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین میں جگہ بنا کر ایک نیا درخت تشکیل دیتی ہیں گویا ایک درخت سے کئی درخت بنتے چلے جاتے ہیں۔

اس برگد سے بھی ان دو صدیوں میں نو درخت بن چکے ہیں حتی کہ کچھ جڑوں نے دوسری عمارت میں جا کر ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے۔ انتظامیہ نے اس کی حفاظت کے لیے چاروں جانب کیاری اور احاطہ بنا دیا ہے۔

اس نباتاتی باغ میں برگد کے مزید 55 درخت موجود ہیں اور ضامن عباس کے مطابق ان میں سے کسی کی عمر بھی ڈیڑھ سو سال سے کم نہیں ہے، ان میں سے ایک درخت تقریباً سوکھ چکا تھا مگر خصوصی دیکھ بھال اور اس سال بارشوں کے بعد اس پر پتے نکل آئے ہیں۔

یاد رہے کہ کراچی میں برگد کا درخت شہر کا ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی کٹائی یا کسی بھی طرح نقصان پہنچانے پر پابندی ہے۔ کمشنر کراچی کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق برگد کے درخت کو نقصان پہنچانے کے مرتکب افراد کے خلاف سندھ قومی ورثہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

املی روڈ

یہاں املی کے بلند و بالا، گھنی چھتری والے 75 سایہ دار درخت موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایک سڑک کے کنارے لگائے گئے ہیں جو پوری سڑک کو سایہ مہیا کرنے کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔

اس روڈ کو ان املی کے درختوں کی وجہ سے املی روڈ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ درخت ہاتھی گھرا ور دفاتر کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔ قیاس ہے کہ شاید انگریزوں کے گھوڑے اس کا پھل شوق سے کھایا کرتے تھے اسی لیے یہ اتنی زیادہ تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ ان درختوں کی عمر بھی سو سے ڈیڑھ سو سال تک ہے اور ان کی اونچائی 80 سے 100فٹ تک ہے۔

مغل گارڈن

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہے اور اب یہ عمارت بھی شان دار درختوں میں گھری ہوئی سچ مچ کسی مغل فرماں روا کا باغ معلوم ہوتی ہے۔

گیٹ سے لے کر عمارت تک جانے والے دونوں راستوں کے درمیان ایک نہر ہے، دونوں جانب دیدہ زیب فانوس لگے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمارت کی جانب جانے والے دونوں راستوں پر بلند و بالا پام کے درخت اس طرح ایستادہ ہیں گویا محافظ دست بستہ کھڑے پہرا دے رہے ہوں۔

پام کے ان درختوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے ان میں فین پام کے 21 ،ملیشیا پام کے 19 اور بوٹل پام کے 71 درخت ہیں جن کی عمریں کسی بھی طور پچیس تیس سال سے کم نہیں ہیں۔

بیو مونٹ لان

یہ لان کراچی میونسپلٹی کے انگریز دور (1905- 1910) کے صدر ٹی ایل ایف بیومونٹ کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں برگد کے درخت کافی تعداد میں موجود ہیں اور اب تک نام کی تختی بھی موجود ہے۔

اس نباتاتی باغ کا خزانہ 2,311 بڑے درختوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نیم کے 111، املی کے 75، برگد کے 55، السٹونیا کے 61، پیلٹوفورم کے 19، ملیٹا کے 4، لیگنم کے 71، مولسری کے 2، گل موہر کے 7، بانس کے 61، جامن کے 11، املتاس کے 7، اشوک کے1100، ناریل کے 5، گلر کے 9، چمپا کے 2، پیپل کے 9، بکائن کے 9، سفیدہ کے 7، بیلگری کے 3، کیتھ کا ایک، بوتل پام کے 71، پاکر کے 7، کارڈیا کے 30، کھرنی کے2 ، انڈین ٹیولپ کے 5، برنا کے 11، جنگل جلیبی کے 511، کینن بال کے 2، ملیٹیا پام کے 19، فین پام کے 21 اور پنک کیسیا کے 5 درخت موجود ہیں۔

باغ بانی کے ماہر توفیق پاشا موراج کے مطابق اس نباتاتی باغ میں کچھ نایاب درخت ایسے بھی ہیں جو پورے کراچی میں کہیں اور نہیں پائے جاتے مثلا کینن بال ٹری جس کے دو درخت یہاں موجود ہیں، یہ درخت کراچی میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کراچی کا سبز خزانہ ہے جسے بھرپور طریقے سے کام میں لانا چاہیے۔ طالب علموں کو یہاں کا دورہ کروایا جائے، شجر کاری اور کچن گارڈننگ کے حوالے سے تربیتی کورس کروائے جائیں، شہر بھر کے مالیوں کو تربیت دی جائے۔ بہترین نرسریاں تشکیل دی جائیں جس سے دوسرے ادارے اور شہری بھی استفادہ کر سکیں۔ اس وسیع رقبے اور ان سبز وسائل کو زیادہ سے زیادہ کام میں لایا جائے۔

ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق کسی بھی بالغ شجر سے حیات کی کم ا زکم پندرہ اقسام وابستہ ہوتی ہیں جن میں انسان، پرندے، تتلیاں ، گلہریاں، شہد کی مکھی، مختلف کیڑے مکوڑے وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا یہ درخت حیاتیاتی تنوع کی وسیع اقسام کا مسکن ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایک انسان اپنی عمر میں اوسطا جتنی آکسیجن استعمال کرتا ہے وہ کم از کم سات درختوں کے برابر ہے اس لحاظ سے دو کروڑ آبادی والے شہر میں 14 کروڑ درختوں کی ضرورت ہے، ایسے میں درختوں کی انتہائی کم شرح کے ساتھ موسمیاتی تغیرات کے خطرے سے نبرد آزما کراچی کے لیے ایک ایک درخت قیمتی ہے۔

،تصویر کا کیپشن

بوٹینیکل گارڈن میں موجود ایک نایاب ’کینن بال‘ درخت

کراچی کی فضائی آلودگی کے پیش نظر شہر میں موجود ہر درخت ایک بیش قیمت اثاثہ ہے کیونکہ درخت فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے فضا کو صاف کرتے ہیں۔ گارڈن کے علاقے کا شمار کراچی کے گنجان آباد اور آلودہ ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک سے نکلتا دھواں فضا کو شدید آلودہ کرتا ہے۔

محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے ترجمان مرزا مجتبٰی بیگ کے مطابق سندھ تحفظ ماحول کے اعداد و شمار کے لحاظ سے گارڈن کے علاقے میں فضائی معیار کے ایک اہم جزPM 2.5 کی مقدار 68 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر پائی گئی ہے۔ جو کہ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے معیارات کے مطابق 25 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقے کا فضائی معیار مطلوبہ حد سے تین گنا ابتر ہے۔

مجتبی کے مطابق پی ایم ڈھائی (PM 2.5) سے مراد Particulate Matter 2.5 ہے یعنی وہ فضا جو ہمارے ناک اور منہ کے بالکل قریب ہوتی ہے اور ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچنے سے قبل اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی آلودہ فضا میں ہزاروں درختوں کا ذخیرہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے تمام سائنسی شواہد اور جدید تکنیک کو بروئے کار لانا چاہیے۔

وفاقی اردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ نباتات کے سابق وزیٹنگ پروفیسر، کئی کتابوں کے مصنف اور ماہرنباتات ڈاکٹر معین الدین احمد پاکستان میں ڈینڈروکرونولوجی کی جدید تحقیقی تکنیک کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس تکنیک سے درختوں کے اندر موجود ’برسا پرتوں‘ سے آپ نہ صرف درختوں کی درست عمر بلکہ ان پر گزرنے والوں موسموں کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک پھول دار درختوں کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہے کیونکہ ان میں گروتھ رنگ زیادہ واضح نہیں ہوتی ہے۔

تاہم ان کے مطابق اس کے علاوہ بھی طریقے موجود ہیں جن سے ان درختوں پر تحقیق کی جاسکتی ہے جس سے درختوں کی عمر، کراچی کے موسموں کا مکمل ڈیٹا مل سکتا ہے کہ کب اس شہر میں بارشیں برسیں اور کب کب خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑے، یہ فضا سے کتنا کاربن اور شور کی کتنی آلودگی جذب کرتے ہیں، یہ سب معلوم ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر معین کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے کراچی زولوجیکل اور بوٹینیکل گارڈن اور یونیورسٹی کے مابین اسی طرح کی ایک تحقیق کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو بدقسمتی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔

ماہرین متفق ہیں کراچی کی فضائی آلودگی کے لیے ان ہزاروں درختوں کی موجودگی ان گنت فوائد کی حامل ہے اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔