👈 *محمد عبداللہ نامی تیس سالہ نوجوان اپنی ماں کو
لیڈی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لئے لایا۔*👉
لڑکے کی ماں چیک اپ کے لئے بیٹھنے کی بجائے اٹھ اٹھ کر جاتی ادھر ادھر اور بھاگنا چاہتی تھی۔ وہ بار بار اپنی چادر اتار پھنکتی لیکن اس کا بیٹا پیار کے ساتھ اسے بہلاتا اور اس کی چادر درست کر دیتا۔ اس دوران اس نے اپنے بیٹے کے ہاتھ پر کاٹ بھی لیا اور اس کے چہرے پر مارا لیکن اس کا بیٹا مسکراتا رہا اور بہت پیار سے اپنی ماں کا دھیان رکھتا رہا اور ڈاکٹر کو مان کے مرض و تکلیف کی بابت بتاتا رہا۔
ڈاکٹر نے اس لڑکے سے پوچھا کہ یہ عورت کون ہے تو اس نے جواب دیا ، “میری ماں”۔ تب ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ اس کی یہ حالت کب سے ہے؟ لڑکے نے جواب دیا کہ اس کی ماں کو اس کے بچپن میں اس کے باپ نے چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے ماں ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ لڑکے نے مزید بتایا کہ پہلے میری نانی میری ماں کا خیال رکھتی تھی پر جب وہ دس سال کا تھا تو نانی فوت ہو گئیں تو تب سے وہ خود اپنی ماں کا خیال رکھتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب وہ سونا چاہتا ہوں تو اپنا پاؤں ماں کے پاؤں کے ساتھ باندھ لیتا ہے تا کہ ماں اپنے آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے یا اکیلی گھر سے نہ نکل جائے۔
ڈاکٹر کے چیک اپ کے دوران لڑکے کی ماں نے بچوں کی سی ضد سے چپس مانگنے شروع کئے تو اس کے بیٹے نے اسے چپس کھلائے جس پر اس کی مان نے خوشی سے ہنسنا شروع کر دیا اور لڑکا اپنی ماں کو چپس کھاتا اور جوس پلاتا رہا پھر اپنی ماں کا منہ رومال سے صاف کیا۔
ڈاکٹر نے کہا، یہ آپ کی ماں ہے لیکن آپ کو نہیں جانتی؟ لڑکے نے جواب دیا ، بیشک وہ نہیں جانتی کہ میں اس کا بیٹا ہوں لیکن جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ میری ماں ہے۔
اسی دوران ماں نے کلینک میں لگے ٹی وی پر خانہ کعبہ کی تصاویر دیکھیں تو ماں نے بیٹے سے کہا، ارے تم مجھے مکہ کیوں نہیں لے گئے؟ بیٹے نے جواب دیا، جمعرات کو ماں، کیا میں نے آپ کو بتایا نہیں تھا کہ میں آپ کو جمعرات کو عمرے کے لئے لے جاؤں گا۔
ڈاکٹر نے اسے کہا کہ آپ اپنی ماں کو عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ لے جائیں گے تو آپ کی پریشانی بڑھ جائے گی۔ بیٹے نے کہا کہ جب بھی میری ماں عمرہ کے لئے جانے کا کہتی ہے تو میں اسے مکہ مکرمہ لے جاتا ہوں، چاہے وہ کتنی بار جانا چاہے، میں نہیں چاہتا کہ میری ماں کچھ چاہے اور میں اس کی خواہش استطاعت ہونے کے باوجود پوری نہ کروں۔
اس ماں بیٹے کے جانے کے بعد ڈاکٹر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بہت رویا۔ ڈاکٹر نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے والدین کے حقوق کی بابت بہت کچھ سنا اور پڑھا لیکن اس لڑکے کی طرح ماں کی خدمت کرتے پہلے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔ اس لڑکے کی ماں کو بالکل شعور نہیں کہ وہ اس کا بیٹا ہے لیکن اس کا بیٹا اس کو انتہائی پیار کے ساتھ سنبھالتا اور اس کا خیال رکھتا ہے اور صرف اللہ کریم کی رضا کے لئے اپنی ماں کی خدمت کے لئے پوری کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ وہ اسے مینٹل اسپتال داخل کرا سکتا تھا لیکن اس نے اپنی ماں کی خدمت اور اس کی دیکھ بھال خود کرنے کا انتخاب کیا تاکہ جنت کا دروازہ اس کی زندگی اور اس کے بعد انشااللّٰہ کھلا رہ سکے۔
بے شک جنت ماں کے قدموں میں ہے۔
یہاں تک کہ اگر آپ اپنی ساری زندگی اپنے والدین کے لئے قربان کردیں تو، آپ نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا!
“اے ہمارے رب! مجھے اور میرے والدین کو اور (سب کو) اس دن معاف کر دینا جس دن حساب قائم ہوگا۔ ” آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
_*مزید ایسی پوسٹیں حاصل کرنے کے لیے ھمارا گروپ جواٸن کریں*_
_*☜ گروپ میں ایڈ ہونے کے لئے Join لکھ کر ان نمبر پر WhatsApp کریں*_
🔮 *اصلاحی معاشرہ*
No comments: