اسلامی باتیں


2=






راقم کی کتاب الاربعین فی مناقب امیر المومنین سے ماخوذ۔ ساجد خان نقشبندی
حضرت امیرمعاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام 
رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نظر میں 
اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ :أِنِّیْ لَاَتَمَنّٰی أَنْ یَّزِیْدَ اللّٰہُ عز و جل مُعَاوِیَۃَ مِنْ عُمْرِیْ فِیْ عُمْرِہٖ 
( الطبقات لابی عروبۃ المتوفی 318 ھ ،ص41،دارالبشائر)
میں یہ تمنا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی معاویہ کو میری عمربھی لگادے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ : لَا تَذْکُرُوْ ا مُعَاوِیَۃَ أِلاَّ بِخَیْرٍ 
(البدایۃ والنہایۃ ،ج8،ص177، التاریخ الکبیر،ج4،ص328،رقم 1405 دارالکتب العلمیۃ ،بیروت، سیر اعلام النبلاء ،ج3،ص126)
لوگو! معاویہ کا ذکر صر ف خیر کے ساتھ ہی کیا کرو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کسی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی برائی بیان کی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہمارے سامنے قریشی جوان کا گلہ نہ کرو جو غصے میں بھی ہنستا ہے رضامندی کے ساتھ جو چاہو اس سے لے لو مگر اس سے چھیننا چاہو تو کبھی چھین نہ سکو گے۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ :
مَا رَأَیْتُ أَحَداً بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَسْوَدَمِنْ مُّعَاوِیَۃَ۔
(اسد الغابۃ ،ج4،ص434،الاستیعاب ،ص660)
میں نے نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ سیادت و سرداری کے لائق کسی کو نہ دیکھا۔
اسود کا ایک معنی سخاوت کا بھی ہے۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ :أَصَابَ أِنَّہ‘ فَقِیْہ’‘
(الصحیح لامام البخاری،ج۱،ص:۵۳۱)
ؔمعاویہ کو کچھ نہ کہو کہ وہ فقیہ تھے۔ 
حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالی عنہ :مَارَأَیْتُ أَحَداً بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَشْبَہَ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنْ أَمِیْرِکُمْ ھَذَا یَعْنِیْ مُعَاوِیَۃَ 
(مسند الشامیین للطبرانی ،ج1،ص168 رقم282،مجمع الزوائد ،ج9، ص590،رقم15920، دارالفکر،بیروت،حلیۃ الاولیاء،ج8،ص275)
میں نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ نبی کریم ﷺ جیسی نماز پڑھتے ہوئے کسی کو نہ دیکھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص :
 مَا رَأَیْتُ أَحَداً بَعْدَ عُثْمَانَ أَقْضٰی بِحَقٍّ مِّنْ صَاحِبِ ھَذَا الْبَاب یَعْنِی معاویۃ
 (تاریخ الاسلام للذہبی ،ج4،ص313، البدایۃ والنہایۃ ،ج8،ص193)
میں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑھ کر کسی کو حق کا پور کرنے والا اور حق کا فیصلہ کرنے والا نہ پایا۔۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ 
قتلای و قتلا معاویۃ فی الجنۃ 
دیگر بزرگان دین کے اقوال 
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ :
رایت رسول اللہ ﷺ فی المنام و ابو بکر و عمر جالسان عندہ فسلمت و جلست فبینما انا جالس اذا اتی بعلی و معاویۃ فادخلا بیتا و اجیف الباب و انا انظر فما کان باسرع من ان اخرج علی وھو یقول قضی لی و رب الکعبۃ ثم ما کان باسرع من ان خرج معاویۃ وھو یقول غفرلی و رب الکعبۃ۔
(البدایۃ النہایۃ ،ج8،ص188,189)
میں نے خواب میں نبی کریمﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ حضر ت ابو بکر صدیق او ر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما آپ کے سامنے تشریف فرما تھے میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا کہ اسی دوران حضرت علی و حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہماکو بلا یا گیا اور دونوں کو ایک کمرے میں داخل کردیا گیا اور دروازہ بند کردیا گیا۔میں غور سے اس ساری صورتحال کو دیکھتا رہا کہ تھوڑی ہی دیر میں حضرت علی یہ کہتے ہوئے نکلے :رب کعبہ کی قسم میرے حق میں فیصلہ ہوگیا ‘‘ اور پھر تھوڑی دیر کے بعد امیر معاویہ بھی باہر تشریف لائے یہ کہتے ہیں ’’ خدا کی قسم میری بخشش ہوگئی ‘‘۔ 
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ :
 سئل عبد اللہ ابن مبارک ایھما افضل معاویۃ ابی سفیان ام عمر بن عبد العزیز ؟ فقال واللہ ان الغبار الذی دخل فی انف معاویۃ مع رسول اللہ ﷺ افضل من عمر بالف مرۃ صلی معاویۃ خلف رسول اللہ ﷺ فقام سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویۃ ربنا ولک الحمد فما بعد ھذا ؟
(وفیات الاعیان،ج3،ص33 ،دار صادر بیروت ،البدایۃ والنہایۃ،ج8،ص201،مختصر تاریخ دمشق ،ج25،ص38,39)
عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ امیر معاویہ اور عمر بن عبد العزیز میں سے کون افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ امیر معاویہ کی ناک میں جو غبار نبی کریم ﷺ کی معیت میں داخل ہوا وہ بھی عمر بن عبد العزیز سے ہزار درجے افضل ہے۔اللہ کے بندو ! معاویہ تو وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی پس جب نبی کریم ﷺ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے معاویہ ربنا ولک الحمد کہتے 
اللہ اکبر!
صلی معاویۃ خلف رسول اللہ ﷺ فقام سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویۃ ربنا ولک الحمد فما بعد ھذا ؟
اس جملے کی معنویت و جامعیت کی ترجمانی باوجود کوشش کے اردو میں مجھ سے نہ ہوسکی۔
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ :
 لو رأیتم معاویۃ لقلتم ھذا المہد ی ۔
( البدایۃ النہایۃ ،ج8،ص195،السنۃ لابی بکربن الخلال،ج2ص204 ، مختصر تاریخ دمشق ،ج25،ص53)
اگر تم معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں۔
حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ :
 لو رأیتم معاویۃ لقلتم ھذا المہد ی ۔
(المعجم الکبیر،ج19،ص308،رقم691،مکتبۃ ابن تیمیۃ،القاہرۃ)
اگر تم معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں۔
حضرت معافی بن عمران رحمۃ اللہ علیہ :
سئل المعافی بن عمران ایھما افضل معاویۃ او عمر بن عبد العزیز ؟ فغضب من ذالک غضبا شدید ا و قال لا یقاس باصحاب رسول اللہ ﷺ احد ۔ معاویۃ صاحبہ و صھرہ و کاتبہ و امینہ علی وحی اللہ عز و جل  و قد قال رسول اللہ ﷺ دعوا لی اصحابی و اصھاری فمن سبھم فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین ۔
(مختصر تاریخ دمشق ،ج25ص73،البدایۃ والنہایۃ ،ج8،ص202،)
معافی بن عمران سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ ؓ اور عمر بن عبد العزیز ؒ میں کون افضل ہے؟ تو معافی بن عمران اس بے تکے سوال پرسخت غضبناک ہوئے اور فرمایا نبی کریم ﷺ کے صحابہ پر کسی کو قیاس مت کیاجائے ۔معاویہ تو نبی کریم ﷺ کا صحابی اور سسرالی اور کاتب اور اللہ کی وحی پر امین ہیں۔ ( عمر بن عبد العزیز ؒ کوبھلا ان میں سے کونسی فضیلت حاصل ہے ؟) اور تحقیق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری خاطر میرے صحابہ اور میرے سسرالیوں کو کچھ نہ کہو جوان کو برا بھلا کہتا ہے تو اس پر اللہ اس کے فرشتوں اور تمام مخلوق کی لعنت ہے ۔
ربیع بن نافع رحمہ اللہ علیہ :
مُعَاوِیَۃُ سِتْرِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ فَأِذَ کَشَفَ الرَّجُلُ السِّتْرَ أِجْتَرَأَ عَلَی مَاوَرَآہ‘ ( مختصر تاریخ دمشق ،ج25،ص74
امیر معاویۃاصحاب رسول ﷺ کا پردہ ہے او ر جب کوئی شخص کسی چیز کا پردہ کھول دیتا ہے تو پھر جو کچھ پردہ کے اندر ہے اس پر جرات کرنا اس کیلئے مشکل نہیں ہوتا۔
یا ابا الحسن اذا رایت رجلا یذکر لاحد من الصحابۃ بسوء فاتھمہ علی الاسلام 
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
قاضی عیاض شافعی المتوفی 544؁ھ لکھتے ہیں:
قال مالک رحمہ اللہ …من شتم احدا من اصحاب النبی ﷺ ابا بکر او عمر او عثمان او معاویۃ او عمرو ابن العاص فان قال کانوا علی ضلال و کفر قتل و ان شتمھم بغیر ھذا من مشاتمۃ الناس نکل نکالا شدیدا
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ،ج2،ص184،المکتبۃ الحقانیۃ بشاور)
جس نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ ابو بکر ،عمر ،عثمان ،معاویہ ،عمرو ابن العاص میں سے کسی کو گالی دی تو دیکھا جائے گا کہ اگر اس نے انہیں گمراہ اور کافر کہا تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اگر اس نے صرف گالی دی تو اسے ذلت آمیزسزا دی جائے گی۔
علامہ عبد العزیز فرہاروی رحمۃ اللہ علیہ 
قَدْ صَرَّحَ عُلَمَائُ الْحَدِیْثِ بَأَنَّ مُعَاوِیَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ‘ مِنْ کِبَارِ الصَّحَابَۃِ نُجَبَآئِھِمْ وَ مُجْتَہِدِیْھِمْ وَ لَوْ سُلِّمَ أَنَّہ‘ مِنْ صِغَارِھِمْ فَلاَ شَکَّ فِیْ أَنَّہ‘ دَخَلَ فِیْ عُمُوْمِ الْاَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ الوَّارِدَۃِ فِیْ تَشْرِیْفِ الصَّحَاَبۃِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بل قد ورد فیہ بخصوصہ احادیث کقولہ علیہ الصلوۃ والسلام اللھم اجعلہ ھادیا و مھدیا واھدبہ رواہ الترمذی و قولہ علیہ الصلوۃ والسلام اللھم علم معاویۃ الحساب والکتاب وقہ العذاب رواہ احمد و ما قیل من انہ لم یثبت فی فضلہ حدیث فمحل نظر و کان السلف یغضبون من سبہ و طعنہ و قیل لابن عباس ان معاویۃ صلی الوتر رکعۃ واحدۃ قال دعہ فانہ فقیہ صحب رسول اللہ ﷺ کما فی الصحیح البخاری و سبہ رجل عند خلیفۃ الراشد عمر بن عبد العزیز فجلدہ و قال آخر امیر المومنین یزید فجلدہ و قیل لامام الجلیل عبد اللہ بن المبارک امعاویۃ افضل ام عمر بن عبد العزیز قال غبار فرس معاویۃ اذا غزا مع رسول اللہ ﷺ افضل من عمر و قال القاضی عیاض المالکی فی الشفاء قال مالک من شتم احدا من اصحاب رسول اللہ  ﷺ ابا بکر او عمر او عثمان او معاویۃ او عمر و ابن العاص فان قال کانوا علی کفر و ضلال قتل و ان شتمھم کغیر ھذا من شاتمۃ الناس نکل نکالا شدیدا انتہی و قد الفنا فی الباب رسالۃ سمیناھا الناہیۃ عن ذم معاویۃ  
(النبراس،ص550،551،مکتبہ رضویہ لاہور)
ترجمہ:علماء حدیث نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ کبار صحابہ میں سے ہیں آپ نجیب و مجتہد صحابی ہیں اگر آپ کو چھوٹا صحابی بھی مانا جائے تو بھی آپ بلاشبہ ان احادیث کے عموم میں داخل ہیں جو صحابہ کرام کی شان میں وارد ہوئی ہیں ۔
جب کہ آپ کے حق میں خصوصی احادیث بھی موجود ہیں جیسے آپ ﷺ کا فرمانا کہ اے اللہ معاویہ کو ہادی مہدی بنا اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دے جسکو روایت کیا ہے ترمذی نے اور جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ کو حساب و کتاب کا علم سکھا اور اسے عذاب سے محفوظ فرما جیسا کہ امام احمد نے اس کا روایت کیا ہے ۔اور یہ جو کسی نے کہہ دیا کہ آپ کی شان میں کوئی حدیث ثابت نہیں تو یہ بات قابل قبول نہیں ۔ سلف صالحین کے سامنے جب کوئی امیر معاویہ ؓ کو برا بھلا کہتا تو وہ غضب ناک ہوجاتے اور ابن عباس کو کہا گیا کہ معاویہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں کچھ نہ کہو وہ فقیہ ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ کے صحابی ہیں ( بخاری)اور ایک آدمی نے خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز کے سامنے آپ کو گالی دی تو آپ نے اسے کوڑے لگوائے اسی طرح کسی نے آپ کے سامنے یزید کو امیر المومنین کہا تو اسے بھی کوڑے لگوائے امام جلیل عبد اللہ بن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز تو آپ نے فرمایا کہ معاویہ ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کیا تھا اس وقت ان کے گھوڑے کی گرد بھی عمر بن عبد العزیز سے افضل ہے ۔ہم نے اس موضوع پر ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام ’’الناہیہ عن ذم معاویہ ‘‘ ہے ۔
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیاحضرت معاویہ افضل ہیںیاحضرت عمر بن عبد العزیز ؟تو آپ نے جواب دیا وہ غبار جو حضو ر علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ حضرت معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوا وہ کئی درجے عمر بن عبد العزیز سے افضل ہے ۔
 (مکتو بات امام ربانی ،دفتر اول ،مکتوب نمبر 58،ج1،ص196، مترجم سعید احمد نقشبندی بریلوی ،اعتقاد پبلشنگ ہاوس دہلی)






1=








ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرایل کچھ پریشان ہے آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپکو غمزدہ دیکھ رہا ہوں جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکہ آیا ہوں اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں نبی کریم نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں 
ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا
اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے 
اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے 
چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے 
تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے
دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گئ
یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا 
جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا 
جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا 
اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپکے امت کے گنہگاروں کو ڈالے گے
جب نبی کریم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا تو آپ بے حد غمگین ہوے اور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کی تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے مسجد سے حجرے جاتے ہیں
گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آے دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوے سیدنا عمر کے پاس آے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جاے آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا حضرت عمر نے سلمان فارسی کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنے اعظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نھی جانا نھی چاھیئے
بلکہ مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ اندر بھیجنی چاھیئے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئی
" ابا جان اسلام وعلیکم"
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائینات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا 
ابا جان آپ پر کیا کیفیت ھے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہے 
نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جاے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے 
گنہگاروں کا غم کھاے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ انکو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر 
کہ اتنے میں حکم آگیا "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى
اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے.. 
آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جاے 
لکھتے ہوے آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے انکو کیا دیا..؟؟
آپکا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں . آج اپنے نبی کی رحمت کا یہ پہلو کیوں نہ شیئر کریں. آئیں ایک ایک شیئر کرکہ اپنا حصہ ڈالیں . کیا پتہ کون گنہگار پڑه کہ راہ راست پہ آجائے













*میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کی مکمل فہرست اور اُن کا مختصر تعارف* ۔

1.  حضرت حر ابن یزید الریاحی
2. علی ابن حر الریاحی
3۔ نعیم بن العجلا الانصاری
4۔عمران بن کعب الاشجعی
5۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی
6۔ قاسط بن زہیر التغلبی
7۔ کردوس بن زہیر التغلبی
8۔ کنانہ بن عتیق التغلبی
9۔ عمر بن صبیقی الضبعی
10. ضرغامہ ابن مالک التغلبی
11. غامر بن مسلم العبدی
12. سیف ابن مالک العبدی
13۔ عبد الرحمان الارجبی
14.مجمع بن عبداللہ العامذی
15.حیان بن حارث السلمانی
16۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی
17۔ حلاس بن عمر الراسبی
18 ۔ نعمان بن عمرالراسبی
19۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی
20۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی
21۔ زاہر بن عمر الکندی
22۔ جبلہ ابن علی الشیبانی
23. مسعود بن حجاج التیمی
24. حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی
25. عبداللہ ابن بشر الخثعمی
26۔ عمار ابن حسان الطائی
27۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی
28۔ مسلم ابن کشیر الازدی
29۔ زہیر ابن سیلم الازدی
30. عبد اللہ بن یزید العبدی
31۔ بشر بن عمر الکندی
32 عبداللہ بن عروہ الغفاری
33. بریر ابن خضیر الہمدانی
34. وہب ابن عبداللہ الکلبی
35. ادہم بن امیتہ العبدی
36. امیہ بن سعد الطائی
37.سعد ابن حنظلہ التمیمی
38.عمیر ابن عبداللہ المد حجی
39. مسلم بن عوسجہ الاسدی
40. ہلال ابن نافع البجلی
41. سعید بن عبداللہ الحنفی
42.عبد الرحمن بن عبد المزنی
43. نافع بن ہلال الجملی
44. عمر ابن قرظتہ الانصاری
45. جون بن حوی غلام الغفاری
46. عمر ابن خالد الصیدادی
47. حنظلہ ابن اسعد الشبامی
48.سوید ابن عمار الاتماری
49۔یحیی بن سلیم المازنی
50. قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری
51. مالک ان انس المالکی
52.  ذیاد ابن غریب الصائدی
53. عمر بن مطاع الجعفی۔
54. حجاج ابن مسروق المدحجی
55. زہیر ابن قین ابجلی
56. حبیب ابن مظاہر الاسدی
57. ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی
58. انیس بن معقل الاصبحی
59. جابر ان عروۃ الغفاری
60. سالم مولی عامر العبدی
61. جنادہ ابن کعب الخزرجی
 *62.عمر بن جنادۃ الانصاری
63. جنادہ بن الحرث السلمانی
64. عابس ابن شبیب الشاکری
65. شوذب ابن عبداللہ الہمدانی
66. عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری
67.حرث ابن امرو القیس الکندی
68. یزید ابن زیاد الہدلی
69. ابو عمرو النہثلی
70. جندب بن حجیر الخولانی الکندی
71. سلمان بن مضارب الانماری
72.  مالک ابن عبداللہ الجابری*

شہدائے  بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین ۔   تعداد  18

1۔  عبداللہ ابن مسلم

2. محمد ابن مسلم

3.  جعفر ابن عقیل

4.  عبد الرحمان بن عقیل

5.  عبداللہ ابن عقیل

6.  موسی ابن عقیل

7. عون بن عبداللہ بن جعفر طیار

8. محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار

9. عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب

 10. قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب

11. عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب

12.  عبداللہ بن علی ابن ابی طالب

13. عثمان بن علی ابن ابی طالب

14. جعفر بن علی ابن ابی طالب

15. علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب

16. علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

17. محمد بن ابی سعید بن عقیل

18. علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب.

امام حسین  کے رُفقاء کا مفصل احوالِ زندگی و شہادت :

 *1.   حضرت حُر ابن یزید* *الریاحی*

آپ کا نام گرامی حُر بن یزید ابن ناجیہ ابن قعنب بن عتاب بن حرمی ابن ایاح بن یربوع بن خنظلہ بن مالک بن زید مناۃ ابن تمیم الیرنوعی الریاحی تھا۔ آپ کا شمار کوفے کے روساء میں ہوتا تھا ۔  واقعہ کربلا میں آپ کی امام علیہ السلام سے پہلی ملاقات مقام شراف پر ہوئی تھی جب حُر کا لشکر پانی کی تلاش میں بے حال اور پریشان تھا ۔ امام عالی مقام ساقی کوثر نے لشکر کو سیراب کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد حُر نے نماز امام کی اقتداء میں پڑھی اور بعد از نماز  راستہ روکنے اور محاصرہ کرنےکا عندیہ دیا ۔
امام نے فرمایا کہ حق پر جان دینا ہماری عبادت ہے ۔  راستے میں مقام عذیب  پر طرماح ابن عدی اپنے 4 ساتھیوں سمیت امام سے آ ملے ۔  قصر بنی مقاتل پر مالک بن نصر حکم نامہ حاکم لے کے آیا ، جس میں مرقوم تھا کہ جہاں یہ حکم ملے امام علیہ السلام کو وہیں ٹھہرا دینا  اور اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کے آس پاس پانی اور کوئی بھی جزوی انتظام نہ ہو ۔ القصہ مختصر شب عاشور حُر ساری رات پریشان اور متفکر رہے کہ جنت اور دوزخ میں سے کس کا انتخاب کریں ۔ صبحِ عاشور امام کی بارگاہ میں حاظر ہوئے اور اِزن معافی اور اِزن جہاد طلب کیا ، جو مل گیا ۔
امام کے اس غلام نے پچاس دشمنوں کو واصلِ جہنم کیا۔  بالآخر  ایوب ابن مشرح کے تیر سے گھائل ہو کر گھوڑے سے نیچے گرے اور قسور ابن کنانہ کے تیر سے جو آپ کے سینے پر لگا شہید ہو گئے۔

ریاض الشہادت میں روایت ہے کہ بنی اسد نے امام حسین علیہ السلام  سے ایک فرسخ کے فاصلے پر غربی جانب آپ علیہ السلام   کو دفن کیا  اور وہیں آپ علیہ السلام   کا روضہ بنا ہوا ہے ۔

 *2. علی ابن حُر الریاحی*

آپ حُر ابن یزید الریاحی کے بیٹے تھے ۔ نام علی تھا  حُر علیہ السلام   کی شہادت کے بعد  حُر شہید کے قدموں سے اپنی آنکھوں کو ملایا اور امام علیہ السلام   کی قدم بوسی  کر کے اِزن شہادت طلب کیا  اور امام کی غلامی میں شہید ہوئے ۔

 *3.   نعیم بن العجلان الانصاری*

آپ قبیلہ خزرج کے چشم و چراخ تھے اور آپ کے 2 بھائی  نضر اور نعمان اصحاب امیر المومنین علیہ السلام   میں تھے اور آپ واقعہ کربلا میں عاشور کے اولین شُہداء میں شامل ہوئے ۔ یہ وہ جنگ تھی جو صبح عاشور بوقت نماز فجر ہوئی تھی ۔ تاریخ میں جنگ مغلوبہ کے نام سے مشہور ہے ۔

 *4. عمران بن کعب الاشجعی*

آپ کا پورا نام عمران بن کعب ابن حارث الاشجعی تھا ۔ آپ نے امام عالی مقام علیہ السلام کا جس وقت سے ساتھ دیا آخر دم تک اسی پر قائم رہے آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *5. حنظلہ ابن عمر الشیبانی*

آپ بھی امام علیہ السلام   کے وفاداروں میں تھے اور  جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *6.  قاسط بن زہیر التغلبی*

جناب امیر المومنین علیہ السلام   کے اصحاب میں سے تھے  جمل، نہروان، صفین  میں جانبازی سے شریک ہوئے تھے  اور بہت جری تھے ۔ آپ کوفہ سے امام علیہ السلام   کی نصرت کے لیے آئے تھے  اور صبحِ عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *7.  کردوس بن زہیر التغلبی*

آپ کا نام کردوس بن زہیر حرث تغلبی تھا آپ قاسط بن زہیر کے حقیقی بھائی تھے  اور امیر المومنین علیہ السلام   کے اصحاب میں سے تھے ۔ روایت ہے کہ آپ بھی اپنے تیسرے بھائی مسقط بن زہیر کے ہمراہ امام علیہ السلام   کی نصرت کے لیے شب عاشور کربلا میں وارد ہوئے تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *8.  کنانہ بن عتیق التغلبی*

آپ کوفہ کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتے تھے ۔ قراْت قران میں بھی شہرت رکھتے تھے ۔ کربلا  میں جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *9.  عمر بن صبیقی الضبعی*

آپ کا پورا نام عمر بن صبیقہ ابن قیس بن ثعلبتہ الضبعی تھا۔  ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ امام علیہ السلام  سے مقابلے کے لیے کربلا آئے تھے ۔ لیکن صحیح حالات سے با خبر ہونے کے بعد لشکر کو خیر باد کہہ کر امام علیہ السلام    کی بارگاہ میں معافی طلب کر کے جنگ ملغوبہ میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے لڑتے ھوئے شہید ہوئے ۔

 *10.  ضرغامہ ابن مالک التغلبی*

آپ کا نام اسحاق اور لقب ضرغامہ تھا ۔ آپ امیرالمو منین علیہ السلام    کے جانباز صحابی مالک اشتر کے بیٹے اور ابراہیم بن مالک کے بھائی تھے ۔ کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام  کے ہاتھ پر امام علیہ السلام   کی بیعت کر کے کربلا پہنچ کر یوم  عاشور 500 درندوں کو واصل جہنم کر کے شہید ہوئے ۔

 *11. غامر بن مسلم العبدی* .

آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے چاہنے والے اور بصرہ کے رہنے والے تھے ۔ آپ کا پورا نام غامر بن مسلم عبدی المطری تھا ۔  آپ مکہ معظمہ میں ہی امام علیہ السلام کے ساتھ ہو گئے تھے  اور تا دم آخر ساتھ ہی رہے ۔ آپ کے ہمراہ آپ کا غلام سالم بھی تھا ۔ زیارت ناحیہ کی بناء پر آپ کا غلام بھی آپ کے ہمراہ ہی شہید ہوا۔

 *12. سیف ابن مالک العبدی*

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے ۔
امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے  ماریہ کے مکان پر جو خفیہ اجتماع ہوا کرتا تھا آپ اس میں شامل ہوا کرتے تھے۔ اپ نے مکہ میں امام علیہ السلام کی معیت اختیار کی اور جنگ ملغوبہ میں یوم عاشور کو  شہید ہوئے ۔

 *13.  عبد الرحمان الارجبی*

آپ قبیلہ بنو ہمدان کے شاخ
بنو ارجب کے چشم و چراغ تھے۔
آپ کا پورا نام عبد الرحمن بن عبداللہ الکذن بن ارجب بن دعام بن مالک بن معاویہ بن صعب بن رومان بن بکیر الھمدانی الارجبی تھا۔ آپ اس دوسرے وفد کے ایک  رکن تھے جو کوفے سے خطوط لے کے مکہ گئے تھے۔  جبکہ آپ کے ہمراہ قیس  اور 50 خطوط تھے ۔ یہ وفد12 رمضان کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا تھا ۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کے جناب مسلم علیہ السلام کے ہمراہ یہی عبد الرحمن ، قیس اور عمارہ شامل تھے ۔ عبد الرحمن جناب مسلم کو کوفے پہنچا کر واپس امام علیہ السلام کی خدمت میں مستقل شامل ہو گئے تھے اور عاشور کو امام علیہ السلام کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے ۔

 *14.  مجمع بن عبداللہ العامذی*

آپ قبیلہ مذحج کے نمایاں فرد تھے ۔ آپ کو امیر المومنین علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔  یہ وہی ہیں جنہوں نے امام علیہ السلام مقام عذیب میں کوفے کے تمام حالات سے آگاہ کیا تھا اور کوفہ جانے والے امام کے آخری قاصد قیس ابن مہر کی گرفتاری اور انکی شہادت  سے امام علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔آپ بھی جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ کچھ روایات نے آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عائذ بن مجمع کی شہادت بھی کربلا میں لکھی ہے ۔

 *15. حیان بن حارث السلمانی*

آپ قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے ۔ مدینے سے کربلا جاتے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ ہوئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں امام علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔

 *16. عمرو بن عبداللہ الجندعی*

جندع قبائل ہمدان کی ایک شاخ کا نام تھا ، آپ کربلا میں شاملِ لشکرظُ ہوئے  اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ علامہ مجلسی ، فاضل اربلی اور سپہر کاشانی نے اپنی کتابوں میں جنگ ملغوبہ کےبجائے میدان کارزار میں شہادت بیان کی ہے ۔ زیارت ناحیہ میں ورد آگین الفاظ کے ساتھ آپ پر  سلام کیا گیا ہے ۔

 *17.  حلاس بن عمر الراسبی*

آپ کوفہ کے رہائشی اور قبیلہ ازو کی شاخ راسب کی یادگار تھے  اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار ہوتے تھے ۔ کوفہ سے عمر سعد کے لشکر  کے ہمراہ آئے تھے اور جب آپ کو یقین ہو گیا کے صلح نہ ہو سکے گی تو شب عاشور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *18.  نعمان بن عمر الراسبی*

آپ بھی قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے اپ حلاس ازدی کے سگے بھائی تھے ۔ 9لشکر ابن سعد  سے بغاوت کر کے شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔

 *19.  سوار ابن ابی عمیر* *الہمدانی*

آپ ھمدان کے رہنے والے تھے اور  محرم کے مہینے میں امام علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے ۔  اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *20.  عمار ابن سلامتہ الدالانی*

آپ قبائل ہمدان کی ایک شاخ بنی دالان کے ایک معزز فرد تھے اورآپ کو  صحابی رسول صلی علیہ و آل وسلم  اور صحابی امیر المومنین علیہ السلام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جنگ جمل ، صفین و نہروان میں حضرت امیر المومنین کے ساتھ رہے ۔ آپ بھی جنگ ملغوبہ میں شہیند ہوئے ۔

 *21.  زاہر بن عمر الکندی*

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک  صحابی عمرو بن الحمق کے ساتھ ہر وقت ہمراہ رہتے تھے آپ نہایت زبردست پہلوان  مشہور تھے اور عرب کے لوگ آپ سے متاثرتھے آپۃ حج کے لیے مکہ پہنچے اور پھر امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے۔ آپ مکہ سے کربلا امام علیہ السلام کے ہمراہ آئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔  آپ کے پوتوں میں محمد بن سنان  امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے راویوں میں شامل ہیں محمد ابن سنان کی وفات 220 ہجری میں ہوئی ۔

 *22.  جبلہ ابن علی الشیبانی*

آپ جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہو گئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *24.   مسعود بن حجاج التیمی*

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک تھے۔ آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے اور پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر جبگ ملغوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عبد الحمن ابن مسعود بھی شہید ہوئے تھے ۔

 *24 ۔ حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی*

اپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور آپ کا تعلق بنی سعد سے تھا ۔ آپ رئیس بصرہ مسعود بن عمر کا خط لے کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پھر واپس نہیں گئے ۔ اور یوم عاشور جنگ ملغوبہ میں امام علیہ السلام پر قربان ہو گئے ۔

 *25.  عبداللہ ابن بشر الخثعمی*

آپ ابنِ سعد کے لشکر  کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے تھے اور صبحِ عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جنگ ملغوبہ میں شہید ہو کر عظیم شہداء  میں شامل ہوگئے ۔

 *26.  عمار ابن حسان الطائی*

آپ امام عالی مقام علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے کربلا آئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں  شہید ہوئے

 *27. عبداللہ ابن عمیر الکلبی*

آپ قبیلہ علیم کے چراغ تھے آپ پہلوانی میں بہت ماہر تھے اور کوفہ کے محلہ ہمدان  کے قریب چاہ جعد میں رہتے تھے ۔ کوفہ سے اپنی زوجہ کے ہمراہ نکل کر امام کی لشکر میں شامل ہوئے اور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کی زوجہ اُم وہب جب آپ کی لاش پر پہنچی تو شِمر کے ایک غلام رُستم نے اس مومنہ کے سر پر گرز کا وار کر کے ان کو بھی شہید کر دیا ۔ آپ کی زوجہ کو کربلا کی پہلی خاتون شہید کہا جاتا ہے ۔

 *28. مسلم ابن کشیر الازدی* :

آپ امام علیہ السلام کے کربلا پہنچنے سے قبل کسی مقام پر امام علیہ السلام کے ہمراہ شامل ہو گئے تھے  اور صبح عاشور شہید ہوئے ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کے  ہمراہ آپ کے ایک غلام رافع ابن عبد اللہ  بھی شامل تھے جو کربلا میں نماز ظہر کے بعد  شہید ہوئے ۔

 *29.  زہیر ابن سیلم الازدی* :

آپ قبیلہ ازد کے نمایاں فرد تھے اور شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ کو شامل لشکر ہوئے اور صبح عاشور جنگ ملغوبہ میں شہید ہوئے ۔

 *30.  عبداللہ بن یزید العبدی* :

آپ اپنی قوم کے سردار اور کوفے میں ماریہ کےگھر جو اجلاس ہوتا تھا اس میں شرکت کرتے تھے آپ مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے اور کربلا میں اولین جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ آپ کے بھائی عبید اللہ اور والد گرامی یزید ابن ثبیط بھی مکہ سے ہم رکاب ہوئے اور عبید اللہ نے نماز سے پہلے اور والد نے نماز کے بعد ھونے والی جنگ میں شہادت پائی ۔

 *31.  بشر بن عمر الکندی* :

آپ حضر موت کے رہنے والے تھے اور قبیلہ کندہ کے فرد تھے آپ بھی جنگ اولین میں شہید ہوئے ۔

 *32.  عبداللہ بن عروہ الغفاری*

آپ کربلا میں امام علیہ السلام سے آ کر ملے اور جنگ ملغوبہ میں شہادت پائی ۔

 *33.  بریر ابن خضیر الہمدانی* :

آپ قبیلہ بنو ہمدان کی شاخ بنو مشرق کی عظیم شخصیت تھے ۔ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور  مکہ سے امام علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے ۔ شب عاشور پانی کی جدوجہد میں جو کارنامہ سرانجام دیا وہ  تاریخ میں سونے کے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ کا شب عاشور پانی لانا وہ واقعہ تاریخ میں رقم ہے ۔ مائتین صفحہ 316-323 ۔ یوم عاشور سب سے پہلا گریہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا وہ آپ ہیی کے جسد خاکی پر کیا تھا “ان بریر امن عباد اللہ الصالحین “” ہاے بریر ہم سے جدا ہو گئے جو خدا کے بہترین بندوں میں سے ایک تھے ”

 *34.   وہب ابن عبداللہ الکلبی* :

یہ حسینی بہادر نصرانی (عیسائی) تھا اور کسی سفر میں اپنی بیوی اوروالدہ کے ہمراہ جا رہا تھا امام علیہ السلام کی نُصرت کے لیے رکا اور اسلام قبول کیا ۔ کتاب ذکر العباس میں تفصیل سے موجود ہے ۔ آپ نے 24 پیادے  قتل کیے اور آپ کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ آپ کی لاش پر گئیں اور اسی دوران شمر کے حکم پر اس کے غلام رُستم نے آپ کو بھی شہید کر دیا ۔ بعض مورخین نے آپ کی زوجہ کو پہلی خاتون شہید لکھا ہے ۔ روایت ہے کے آپ کا سر کاٹ کے خیام حسینی کی طرف پھینکا گیا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا ” ہم راہ مولا علیہ السلام میں جو چیز دے دیتے ہیں اس واپس نہیں لیتے ۔”
روایت ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی 2 دشمنوں کو واصل جہنم کیا تھا ۔ دمعہ ساکبہ ص 331 ، طوفان بکا13

 *35.  ادہم بن امیتہ العبدی*

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ میں سکونت اختیار کی تھی ۔ ماریہ کے مکان پر ہونے والے تمام اجلاسوں میں شریک ہوئے ۔ ایک دن یزید بن ثبیط نے کہا کے میں امام علیہ السلام کی امداد کے لیے مکہ جا رہا ہوں ۔ آپ نے کہا کے میں بھی ساتھ چلوں گا ۔ آپ مکہ پہنچے اور یوم عاشور اپنی جان عزیز امام علیہ السلام پر قربان کر کے امر ہو گئے ۔

 *36.   امیہ بن سعد الطائی*

آپ کوفے میں رہتے تھے جب آپ کو علم ہوا کے امام حسین علیہ السلام کربلا پہنچ گئے ہیں تو آپ فی الفور کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گئےاور یوم عاشور کمال جذبہ قربانی کے پیش نظر امام علیہ السلام اور اسلام پر قربان ہو گئے ۔

 *37. سعد ابن حنظلہ التمیمی*

آپ کے بیشتر حالات تاریخ میں موجود نہیں ہیں مگر ایک جملہ  موجود ہے کہ آپ نہایت بے جگری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اتار کر میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا۔

 *38. عمیر ابن عبداللہ المد حجی*

جناب سعد ابن حنظلہ کی شہادت کے بعد آپ میدان میں آئے اور کمال بے جگری سے لڑ کر بالاخر مُسلم صبانی اور عبداللہ بجلی نے آپ کو شہید کیا ۔

 *39.   مسلم بن عوسجہ الاسدی*

آپ کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ 24 ہجری میں فتح آذربائیجان  میں حذیفہ یمان کے ہمراہ جو کارنامے سرانجام دئیے تھے وہ تاریخ میں موجود ہیں ۔
9 محرم کی شام کو امام علیہ السلام کا وہ خطبہ جس میں امام علیہ السلام نے جب انصار اور احباب سے واپس جانے کو کہا تھا تو رُفقاء کی جانب سے حضرت عباس علمدار علیہ السلام اور انصار کی جانب سے جناب مسلم بن عوسجہ نے کہا تھا ” کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر ہم ساری عمر مارے جائیں اور جلا بھی دئے جائیں تب بھی آپ کی معرفت اور ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی خدمت میں شہادت ، شہادتِ عظیم ہے۔”

شب عاشور جب خندق کے گرد آگ جلانے پر لشکر کفار سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہی اس کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔

جب آپ مسلم بن عبداللہ اور عبداللہ بن خشکارہ بلخی کے ہاتھوں شہید ہوئے تو شبت ابن ربعی اگر چہ دشمن تھا بولا ” افسوس تم ایسے شخص کے مرنے پر خوشی منا رہے ہو جس کے اسلام پر احسانات ہیں ۔جس نے جنگ آذربائیجان میں مُشرکوں کی کمر توڑ دی تھی “
آپ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند میدان میں آئے اور 30 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔

 *40۔  ہلال ابن نافع البجلی*

آپ کی پرورش امیر المومنین علیہ السلام نے کی تھی ۔ تیر اندازی میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اور عادت تھی کی تیروں پر اپنا نام کندہ کر کے استعمال کرتے تھے ۔ شب عاشور امام علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور موقعہ جنگ کا معائنہ کیا ۔ ترکش میں موجود 80 تیروں سے 75 دشمنوں کو قتل کیا اور اسکے بعد تلوار سے 13 کو واصل جہنم کیا ۔ اور پھر کفار کی طرف سے اجتماعی حملے میں شہید ہوئے ۔

 *41. سعید بن عبداللہ الحنفی*

آپ کوفے کی نامی گرامی اشخاص میں تھے ۔ اور میدان کربلا میں بوقت نماز ظہر جب دوران جماعت دشمنوں نے تیر اندازی شروع کی تو آپ امام علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ایک بھی تیر امام کی طرف آنے نہ دیاحتیٰ کہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ۔

 *42.  عبد الرحمن بن عبد المزنی*

آپ نہایت سعید اور مُحب آل محمد تھے ۔یوم عاشور اذنِ جنگ حاصل کر کے میدان میں آئے اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے ۔

 *۔43.  نافع بن ہلال الجملی*

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے جمل ، نہروان ،اور صفین میں شر کت کی ۔ کربلا میں سعی آب کی کوششوں میں علمدارِ کربلا کے ساتھ شریک ہوئے ۔ 12 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے۔

 *44.  عمر ابن قزظتہ الانصاری*

آپ مدینہ سے آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئے تھے اصحاب امیر المومنین میں شامل تھے ۔ میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے پیغامات عمر بن سعد تک پہنچایا کرتے تھے ۔ آپ نے بہت بے جگری سے جنگ لڑی اور با لآ خر شہید ہو کر راہ حق میں امر ہوگئے ۔

 *45.  جون بن حوی غلام الغفاری*

آپ جناب ابوذر غفاری کے غلام تھے ۔ جون پہلے امام حسن علیہ السلام کی خدمت  کرتے تھے اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے خدمت میں مصروف ہو گئے ۔آپ امام علیہ السلام کے ہمراہ مکہ سے مدینہ اور کربلا آئے ، عاشورہ کے دن آپ پہلے فرد ہیں جن کو امام علیہ السلام نے کئی بار اِزنِ شہادت طلب کرنے کا باوجود منع فرمایا اور کہا ” جون مجھے پسند نہیں کہ میں تم کو قتل ہوتا دیکھوں “ پھر جون کا وہ جملہ جو تاریخ میں مرقوم ہے ” مولا  میرا پسینہ بدبودار ، حسب خراب اور رنگ کالا ہی سہی لیکن عزم شہادت میں کوئی خامی نہیں ہے۔ مولا بہرا خدا اجازت عطا کریں  تا کہ سرخ رُو ہو سکوں۔”۔ اِزن ملنے کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو امام علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ ” پروردگار ان کے پسینے کو مشکبار رنگ کو سفید اور حسب کو آل محمد کے انتساب سے ممتاز کر دے “ روایت ہے کہ دعا ختم ہوتے ہیں جون مثل گلاب اور پسینہ انتہائی معطر ہو گیا تھا۔

 *46. عمر ابن خال الصیدادی*

آپ کوفہ سے نکل کر مقام عذیب پر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوم عاشورہ کو عروسِ شہادت سے ہم کنار ہوئے ۔

 *47.  حنظلہ ابن اسعد الشبامی*

آپ امام علیہ السلام کے پاس کربلا میں پہنچے تھے اور بہت جواں مردی کے ساتھ جنگ کر کے شہید ہوئے ۔

 *۔48.  سوید ابن عمار الاتماری*

آپ بڑے شجاع اور آزمودہ کار زار تھے آپ کو میدان کربلا میں عروہ بن بکار اور یزید بن ورقا نے شہید کیا۔

 *49.  یحیی بن سلیم امازنی*

آپ شب عاشور بریر ہمدانی کے ساتھ پانی کے لیے کی جانے والی کوشش میں شریک تھے اور یوم عاشور کو امام علیہ السلام کے انصاروں کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے ۔

 *50.  قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری*

آپ نہایت شریف اور جانباز تھے ۔ یوم عاشور امام علیہ السلام سے اجازت حاصل کرنے کے بعد دشمن پر اتنی بے جگری سے حملے کیے کہ ان کے دانت کھٹے کر دئے ۔ آپ رجز پڑھتے اور حملے کرتے ،  یہاں تک کے شہید ہو گئے۔

 *51.   مالک ان انس المالکی*

آپ کا نام انس بن حرژ بن کاہل بن عمر بن صعب بن اسد بن حزیمہ اسدی کاہلی تھا ۔ آپ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے صحابی  اور راوی حدیث بھی ہیں ۔ آپ کوفہ سے نکل کے امام علیہ السلام کی بارہ میں کربلا میں حاضر ہوئے ۔ آپ نہایت کبیر السن تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے شہید ہوئے۔

 *52.  ذیاد ابن غریب الصائدی*

آپ کی کنیت ابو عمرۃ تھی ۔ آپ بنی ہمدان کی شاخ بنی حائد کے چشم و چراغ تھے۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔ آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا۔

 *53.   عمر بن مطاع الجعفی*

۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔

 *54.  حجاج ابن مسروق* *المدحجی*

آپ کا شمار انصار امیر المومنین علیہ السلام میں ہوتا تھا ۔ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کا سن کر آپ بھی کوفہ سے عازم سفر ہوئے اور منزل قصر بنی مقاتل میں شرف ملاقات حاصل کیا اور ، 15 دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد واپس امام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے واپسی پر آپ کا غلام ” مبارک ” بھی ہمراہ ہو گیا دونوں نے کمال کی جنگ کی اور 150 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے

 *55.    زہیر ابن قین ابجلی*

آپ کوفہ کے رہائشی تھے پہلے عثمانی بعد میں حسینی علوی ہو گئے ۔  حج سے  اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپسی پر امام علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے ۔ امام کے لشکر میں شامل ہونے کے بعد اپنی زوجہ کو طلاق دے کے واپس بھیج دیا اور خود شیہد ہو گئے۔ روایت ہے کہ شب عاشور جب ایک رات کی مہلت لینے کے لیے علمدار کربلا گئے تھے تو آپ بھی ان کے ہمراہ گئے تھے ۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کے میمنہ کی سربراہی بھی جناب کو ہی عطا کی گئی تھی۔ آپ نے 120 افراد کو قتل کر کے جام شہادت نوش کیا ۔

 *56. حبیب ابن مظاہر الاسدی*

آپ صحابی رسول صلی علیہ و آلہ وسلم تھے  اور امام علیہ السلام کے بچپن کے دوست تھے ۔ آپ کاایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ نے ۳ اماموں علیہ السلام اجمعین کی صحبت کو شرف حاصل کیا ۔ روایت ہے کہ مقام زرو پر امام نے آپ کی آمد کا انتظار کیا ۔ اور میسرہ کی کمان آپ کے سپرد کی ۔ یوم عاشور آپ نے 62 دشمن واصل نار کیے اور بدیل ابن حریم عفقائی کی تلوار کی ضرب سے گھائل ہوئے اور حصین بن نمیر نے تلوار کا وار کیا جو آپ کے سر مبارک پر لگی اور شہید ہوگئے ۔ روایت ہے کہ آپ کا قاتل ابن زیاد سے 100 درہم کا انعام لے کے اور آپ کا سر مباک گھوڑے کی گردن میں لٹکا کر مکہ پہنچا جہان حبیب کے ایک فرزند نے اس کو قتل کر کے آپ کا سر مبارک مقام معلی میں جو اب ” راس الحبیب ” کے نام سے مشہور ہے دفن کر دیا ۔

 *57.   ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی*

آپ نماز ظہر کے لیے عین ہنگامہ کارزار میں، جب امام علیہ السلام  امامت فرما رہے تھے ۔ آپ نے امام علیہ السلام کی حاظت کرتے ہوئے  کمال دلیری سے شمشیر زنی کی اور اپنے چچا زاد بھائی قیس ابن عبداللہ انصاری کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

 *58.   انیس بن معقل الاصبحی*

آپ آلِ محمد علیہ السلام کے جانثاروں میں سے تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے ۔

 *59.  جابر ابن عروۃ الغفاری*
آپ صحابی  رسول تھے ۔ اور کافی غزوات میں شریک ہوئے ۔ آپ نہایت ضعیف تھے ۔ جنگ پر جانے سے قبل آپ نے عمامہ سے اپنی کمر اور ایک کپڑے سے اپنے پلکوں کو اٹھا کر باندھ لیا تھا ۔ غضب کا معرکہ لڑا اور 60 افراد کو قتل کر کے شہید ہوئے۔

 *60.   سالم مولی عامر العبدی*

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے ۔ اور کربلا میں شہید ہوئے ۔

 *61.  جنادہ ابن کعب الخزرجی*

آپ قبیلہ خزرج کی یادگار تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے۔ 18 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔

 *62.  عمر بن جنادۃ النصاری*

آپ جنادہ ابن کعب کے فرزند اور کم عمر تھے باپ کی شہادت کے بعد والدہ نے آپ کو تیار کر کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کیا امام نے کہا ” ابھی تمہارا باپ شہید ہوا ہے، میں تم کو اجازت نہیں دے سکتا”
 یہ سن کر آپ کی والدہ نے امام علیہ السلام کی قدم بوسی کی اور اجازت طلب کی ۔ امام علیہ السلام سے اجازت لے کر میدان میں گئے اور شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ قاتل نے سر کاٹ کر خیام کی طرف پھینکا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان میں پھینک دیا جو قاتل کی سینے پر لگا اور وہ وہیں واصل جہنم ہو گیا ۔

 *63.   جنادہ بن الحرث السلمانی*

اپ کوفہ کے رہائشی تھے اور امام علیہ السلام سے راستے میں ملاقات کر کے آپ کے رفقاء میں شامل ہوئے ۔ میدانِ کربلا میں ظہر سے قبل شہید ہوئے ۔

 *64.   عابس ابن شبیب الشاکری*

آپ قبیلہ بنو شاکر کی یادگار تھے اور  یہ وہی قبیلہ ہے جس کی بابت امیر المومنین علیہ السلام  نے جنگ صفین میں فرمایا تھا ” اگر بنو شاکر کے 1000 افراد موجود ہوں تو دینا میں اسلام کے علاہ کوئی اور مذہب نہ ہو۔ ” یوم عاشور پر جب میدان میں آ کر مبازر طلب کیا تو کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ بالآخر آپ پر اجتماعی پتھراو کیا گیا اور سب نے مل کر حملہ کیا جس سے آپ شہید ہوگئے ۔

 *65.  شوذب ابن عبداللہ* *الہمدانی*

آپ عابس الشاکری کے غلام تھے اور بلا کے جری تھے ۔ آپ بھی اپنے مالک کے ہمراہ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے ۔

 *66.   عبد الرحمان بن عروۃ* *الغفاری*

آپ کوفہ کے رہائشی تھے اور میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے نصرت اور تائید میں شہید ہوئے ۔

 *67.  حرث ابن امرو القیس* *الکندی*

آپ صبحِ عاشور لشکر ابن سعد سے نکل کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا ۔

 *68.   یزید ابن زیاد الہدلی*

آپ کی کنیت ابو الشعشاء تھی ۔آپ اپنی قوم کے سردار اور فنون جنگ میں طاق تھے ۔آپ میدان کربلا میں بے جگری سے لڑے تو دشمنوں نے آپ کے گھوڑے کے پیر کاٹ دیے اس وقت آپ کے ترکش میں 100 تیر تھے آپ نے ہر تیر سے ایک فرد کو واصلِ نار کیا ۔ تیر ختم ہونے کے بعد تلوار بازی کی اور  نیزہ لگنے سے گھائل ہوئے  اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔

 *69.   ابو عمرہ النہثلی*

آپ میدانِ کربلا کی انفرادی  جنگ میں شہید ہوئے آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا

 *70.  جندب بن حجیر الخولانی الکندی*

آپ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور کوفہ سے نکل کر لشکر حُر کی آمد سے پیشتر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ یومِ عاشورہ کو حمایتِ فرزندِ رسول علیہ السلام میں جنت کے حقدار ہوئے ۔

 *71.   سلامن بن مضارب الانماری*

آپ زہیر ابن قین کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مکہ سے امام علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے اور یومِ عاشور بعد نمازِ ظُہر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔

 *72.  مالک ابن عبداللہ الجابری*

آپ یومِ عاشور سے چند روز پہلے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے ۔ آپ کی شہادت پر اِمام نے وہ ایک جملہ کہا جو تاریخ میں محفوظ ہے ۔

“ اے میرے وفادار بہادرو ۔ تم میرے نانا کی خدمت میں چلو میں تمہارے پیچھے آ رہا ہوں “ ۔

 *شُہدائے اٹھارہ بنی ہاشم علیہ السلام اجمعین ( مفصل احوال )*

کارزارِ کربلا میں امام علیہ السلام کے اصحاب باصفاء اور موالیانِ باوفا کی شہادت کے بعد اِمام علیہ السلام کے اعزاء و اقرباء ، برادران  اور اولاد نے راہِ اسلام میں عظیم اور لازوال قربانیاں دیں اور اسلام کو سدا بہار بنا دیا ۔

اسلام کے دامن میں بس اس کے سواء کیا ہے ۔

ایک ضرب ید اللہ ،  ایک سجدہ شبیری

 *1.   عبداللہ ابن مُسلم*

آپ حضرم مُسلم علیہ السلام کے  فرزند اور امام علیہ السلام کے بھانجے  اور امیر المومین علی علیہ السلام کے نواسے تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ رقیہ بنت علی علیہ السلام اور نانی کا نام صہباء بنتِ عباد تھا ۔ آپ کی والدہ قبیلہ بنی ثعلبتہ کی فرد اور کنیت ام حبیبہ تھی۔آپ اٹھارہ بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں۔ آپ نے 90 دشمنوں کو واصلِ نار کیا اور دوران جنگ عمر ابن صبیح صیدادی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا جس کو روکتے ہوئے وہ آپ کا ہاتھ پیشانی میں پیوست ہو گیا ۔  اس نے دوسرا تیر آپ کے سینے پر مارا جس سے آپ نے شہادت پائی ۔

 *2.  محمد ابن مسلم*

آپ بھائی کو زخمی دیکھ کر امام علیہ السلام سے اِزنِ شہادت طلب کر کے میدان میں گئے اور گھمسان کی جنگ کی۔ آپ کو ابوجرہم ازدی اور لقیط  نے شہید کیا ۔

 *3. جعفر ابن عقیل*

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اور آپ کی والدہ “حوصا” بنت عمرہ بن عام بن حسان بن کعب بن عبد بن ابی بکر ابن کلاب عامری اور آپ کی نانی ریطہ بنت عبداللہ بن ابی بکر تھیں۔ میدان جنگ میں 15 دشمنوں کو قتل کر کے بشر ابن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔۔

 *4.  عبد الرحمان بن عقیل*

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 17 دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد ابن اثیم اور بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

 *5.  عبداللہ ابن عقیل*

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں بہت سے  دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد کے ہاتھون شہید ہوئے۔

 *6.  موسی ابن عقیل*

آپ عقیل ابنِ ابی طالب کے فرزند اورمیدانِ کربلا میں 70 دشمنون کو قتل کر کے سرورِ کائنات کی بارگاہ میں پہنچے ۔

 *7.  عون بن عبداللہ بن جعفر طیار*

آب جناب عبداللہ کے فرزند اور حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے ۔ امیر المومنین علیہ السلام  کے نواسے آپ کی والدہ زینب کُبریٰ علیہ السلام اور نانی جناب خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ تھیں ۔
جناب عبداللہ ابنِ جعفر نے علالت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں  دے دیا تھا  اور امام علیہ السلام پر جانثاری کی ہدایت کر کے چلے گئے تھے۔
جناب عون کے رجز کے اشعار نےدشمنوں  کے دل دہلا دِے تھے ۔ آپ نے 30  سوار اور 18 پیادے قتل کئے اور عبدا بن قطنہ نبھانی کے ہاتھوں  شہید ہوئے ۔

 *8.  محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار*

آپ جناب عون کے بھائی تھے۔
 10 دشمنوں کا قتل کرنے کے بعد عامر بن نہشل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

 *9.  عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب*

آپ امام حسن علیہ السلام کے بڑے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو بکر تھی  آپ کی والدہ گرامی کا نام  جناب “رملہ ” اور کچھ روایات کے مطابق ” نفیلہ” تھا۔ میدان کربلا میں 80 آدمیوں کو قتل کرنے کےبعد عبداللہ بن عقبی غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

 *10.  قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب*

آپ امام حسن علیہ السلام  اور جناب رملہ کے فرزند تھے آپ نہایت جری تھے ارزق شامی جیسے نامی گرامی پہلوان کو میدان کربلا میں قتل کیا ۔ اور جب دشمنوں سے زیر نہ ہوئے تو سب نے اچانک چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا  اور عمیر بن نفیل ازدی کے وار سے گھائل ہوئے ۔ گھوڑے سے گرنے کے بعد زندہ ہی پامال  سُم اسپاں ہو گئے ۔

 *11. عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب*

آپ اِمام حسن علیہ السلام کے فرزند اور والدہ بنت شکیل بن عبداللہ بجلی تھیں ۔ آپ کے نانا صحابی رسول تھے ۔  کربلا میں سنِ بلوغ تک نہ پہنچے تھے مگر شجاعت  بے مثال کے مالک تھے ۔  14 دشمنوں کو قتل کر کے بدست ہانی ابن  شیت خضرمی شہید ہوئے ۔

 *12.  عبداللہ بن علی ابن ابی طالب*

آپ علمدارِ کربلا کے حقیقی بھائی  اور فرزند جناب اُم البنین اور امیر المومنین علیہ السلام تھے ۔
کربلا میں ہانی بن ثبیث حضرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

 *13.  عثمان بن علی ابن ابی طالب*

آپ بھی علمدارِ کربلا کے بھائی  تھے ۔آپ کی عمر 23 برس تھی اور میدان کربلا میں خولی شقی کے تیر سے گھائل ہوکر زخمی ہوئے اور قبیلہ ابان بن وارم کے ایک شخص کی تلوار سے شہید ہوئے ۔

 *14. جعفر بن علی ابن ابی طالب*

آپ کی عمر 21 برس اور میدانِ کربلا میں  ہانی ابن ثبیث کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

 *15.  علمدارِ کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب* ۔

ان بہادران بنی ہاشم کی شہادت کے بعد علمدارِ کربلا نے اِزن شہادت طلب کیا مگر امام علیہ السلام نے ازنِ جنگ نہ دیا اور فرمایا کہ اطفال کے لیے پانی کا بندوبست کرو ۔
آپ مشکیزہ اور علم لے کے میدان میں گئے ، جنگ کی اجازت نہ ملنےکے باوجود آپ کی ہیبت سے لشکر میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ آپ نے پانی پر قبضہ کیا مشک بھری اور  واپس اِزن خیام ہوئے ۔ جب لشکر نے دیکھا کہ آپ بغیر تلوار کے ہیں تو آپ پر حملہ کیا اور پانی کی مشک بچاتے ہوئے آپ کا داہنا ہاتھ زیند بن ورقا کی تلوار سے قلم ہوا ۔ بایاں ہاتھ حکیم ابن طفیل نے قلم کیا مشکیزے پر تیر لگنے سے سارا پانی بہہ گیا  اور ایک تیر آپ کی سینے پر لگا۔آپ کی شہادت پر امام علیہ السلام نے فرمایا ۔
” ہائے میری کمر ٹوٹ گئی” آپ کو کمال حُسن کی وجہ سے قمر بنی ہاشم بھی کہا جاتا تھا۔
مشہور القاب ” سقہ ” ، ابو قریہ ہیں شہادت کے وقت آپ کی عمر 34 برس تھی۔

 *16. علی اکبر بن الحسین الشہید*

آپ امام علیہ السلام کے منجھلے بیٹے تھے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام  اور جناب خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا کے پوتے تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام ” اُمِ لیلٰی ”  تھا۔  آپ صورت اور سیرت میں پیغمبر اسلام کے مشابہ تھے ۔ آپ کا نام علی ابن حسین ۔ کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا۔ آپ نے میدان کربلا میں120 دشمنوں کو قتل کیا اور منقذ ابن مرہ عبدی نے آپ کے گلوئے مبارک پر تیر مار اور ابن نمیر نے سینہ اقدس پر نیزے کا وار کیا ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 18 برس تھی ۔

 *17.   محمد بن ابی سعید بن عقیل*

آپ جناب عقیل کے فرزند اور نہایت کم سن تھے ۔  جناب علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ چوب خیمہ  لے کر باہر نکلے  اور امام علیہ السلام کی طرف رُخ کیا ابھی آپ امام علیہ السلام کے نزدیک بھی نہیں پہنچے تھے کہ نفیظ ابن یاسی  نے آپ پر تلوار کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے ۔

 *18.   علی اصغر ابن الحسین* الشہید

آپ امام علیہ السلام کے کمسن ترین فرزند تھے ۔ آپ 10 رجب سن 60 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ  کا نام رباب بنت امرہ القیس بن عدی بن اوس تھا۔ یوم عاشور کو جب امام علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند کی تو آپ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔ امام علیہ السلام جب6 ماہ کے شہزادے کو لے کر اُس کے لئے پانی مانگنے  کے لئے میدان میں گئے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی اور لشکر بے قابو ہونے لگا ۔  ابن سعد  نے حرملہ کو حکم دیا کہ تیر سہہ شعبہ استعمال کرو۔  اس لعین نے گلوئے صغیر کو تاکا اور تیر کمان سے چھوڑ دیا تیر کا لگنا تھا کہ 6 ماہ کا معصوم بچہ امام علیہ السلام کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ امام علیہ السلام نے خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی طرف پھر زمین کی طرف پھینکنا چاہا مگر دونوں نے اس خون نا حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بالآخر آپ علیہ السلام نے اس لہو کو اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا ، اور فرمایا کہ ” اسی حالت میں اپنے نانا کی بارگاہ میں جاوں گا “ ۔

انکار آسمان کو ہے ، راضی زمیں نہیں

اصغر تمہارے خون کا ٹھکانا کہیں نہیں ۔

 *تاجدار انسانیت سید الشُہداء جناب امام حسین علیہ السلام کی شہادت*

جب آپ علیہ السلام کا کوئی معین اور مددگار باقی نہ رہا تو آپ خود میدان کارزار میں آئے ۔
آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر *1951* زخم آئےاور آپ زمین پر اس طرح تشریف لائے کے آپ علیہ السلام نہ تو زین پر تھے اور نہ زمین پر ۔ نماز عصر کا وقت آ چکا تھا۔ آپ سجدہ خالق میں گئے تو *شِمر ملعون* نے کُند خنجر سے آپ کا سر مبارک جسمِ اقدس  سے جدا کر دیا ۔

یہ المناک واقعہ  *10 محرم* *س61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر* *680* عیسوی بروز جمعہ اس دنیا میں وقوع پزیر ہوا اور دین اسلام کی لازوال تاریخ رقم کر گیا.

Comments

Popular posts from this blog

دنیاوی باتیں

Image

شان اے صحابہ