احمد نورانی نے ایک گ
منام ویب سائٹ فیکٹ فوکس پر ایک سٹوری لکھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا خاندان 99 کمپنیاں، 130 پاپا جانز فرنچائزز، 13 کمرشل پراپرٹیز، 2 کمرشل پلازے اور 2 گھر کی ملکیت رکھتا ہے اور یہ سارے کاروبار اور جائیدادیں پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ میں ہیں.
اس سٹوری کے بعد ٹوئیٹر پر ایک بھونچال آ گیا، وہ تمام خونی لبرل جو سارا سال بغیر کسی وجہ کے ہی افواجِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے نظر آتے تھے، وہی سارے لوگ اس سٹوری کو لے کر آگے آگے تھے اور یہ کہنے لگے کہ عاصم باجوہ ایک کرپٹ جرنیل ہے وغیرہ وغیرہ
یہ ایک مکمل طور پر جھوٹی، من گھڑت اور فیک نیوز ہے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں
1۔ پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سٹوری احمد نورانی کی ہے ہی نہیں۔ پہلی مرتبہ یہ جھوٹ دو مہینے پہلے انڈین میڈیا پر بولا گیا تھا کیونکہ امریکہ اور دبئی میں کام کرنے والی ایک کمپنی ہے، جس کا نام ہے باجکو گروپ ۔۔۔ اس کا مالک ایک پاکستانی عبدالمالک باجوہ ہے، اس نام کی مناسبت سے بھارتیوں نے سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین عاصم سلیم باجوہ کے خلاف ایک فیک نیوز چلائی کہ باجکو گروپ عاصم باجوہ کا ہے۔ اور اس کے بعد بھارتی پروپیگنڈیسٹ جعلی میجر بھگوڑا کیپٹن گورو آریہ نے اس پر ایک یوٹیوب ویڈیو بنائی جس میں کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت دینے کی بجائے صرف یہ کہا گیا کہ باجکو گروپ عاصم باجوہ کا ہے جس کی امریکہ میں پاپا جانز پیزا کی کم و بیش سو فرنچائزز ہیں اور دبئی میں ان کی پراپرٹیز اور کمرشل پلازے ہیں.
بھارتی کی جانب سے یہ پروپیگنڈا دو مہینے سے جاری ہے اور میجر گورو آریہ نے یہ یوٹیوب ویڈیو 25 جولائی کو اپلوڈ کی تھی
اب احمد نوارنی کو بتانا چاہیے کہ اگر یہ اس کی سٹوری ہے تو پھر دو مہینے سے بھارتی میڈیا اس پر کیسے چیخ رہا ہے ؟
2۔ اگر یہ سٹوری اتنی ہی بڑی اور اہم تھی تو احمد نورانی نے یہ خبر جنگ اخبار میں کیوں نہیں دی ؟ خبر ایک گمنام ویب سائٹ پر کیوں چھاپی گئی ہے ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ سٹوری جنگ اخبار میں چھپتی تو اس پر مقدمہ دائر ہو سکتا تھا۔ اس سے پہلے بھی احمد نورانی کی ساری خبریں جھوٹی ثابت ہو چکی ہیں، دو جھوٹی خبروں پر سپریم کورٹ میں کیس بھی چلتا رہا ہے۔ گمنام ویب سائٹ فیکٹ فوکس کا سہارا اسی لیے لیا گیا تا کہ کسی بھی قسم کے ہتکِ عزت کے دعوے سے بچا جا سکے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ یہ ویب سائٹ محض دس دن پہلے بنائی گئی ہے.
3۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ "انویسٹی گیشن جنرلزم" کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ کوئی بھی کہانی گھڑ کر لکھ دیں بلکہ تحقیقاتی صحافت یہ ہوتی ہے کہ آپ اس کے ثبوت حاصل کرتے ہیں اور ان ثبوتوں کی بنیاد پر خبر دی جاتی ہے لیکن یہاں الٹا معاملہ ہے کہ کہانی ساز کے پاس کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے لوگ کئی سال پہلے کہا کرتے تھے کہ "نیازی بس سروس" عمران خان کی ہے کیونکہ عمران خان بھی نیازی ہے۔ اسی طرح انہوں نے بھی کہانی بنا دی کہ عاصم باجوہ ہی "باجکو گروپ" کا مالک ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا مضحکہ خیز بات ہو گی.
کچھ دن پہلے مطیع اللہ جان نے بھی ایک ڈرامہ کیا تھا، میں نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ اس ڈرامے کا مقصد صرف اور صرف ٹوئیٹر پر ہنگامہ کرنا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ اس کے بعد وہی ہوا بارہ گھنٹے بعد مطیع اللہ جان منظرِ عام پر آ گیا اور ایک جھوٹی کہانی سنا کر غائب ہو گیا، آج تک دوبارہ کسی نے اس سے نہیں پوچھا کہ بھائی فوج نے اٹھایا تھا تو اس کے خلاف پھر تم نے کیا ایکشن لیا ؟ کیا کسی تھانے میں رپورٹ درج کروائی ؟ عدالت میں گئے ؟ تم تو بہت بڑے انقلابی اور باغی بنتے ہو ، تم خاموش کیوں ہو گئے ہو ؟
بس یہاں پر بھی یہی کچھ ہو گا، یہ جھوٹ اور پروپیگنڈا صرف اور صرف ٹوئیٹر پر پھیلایا جائے گا، اور پھر خاموشی ہو جائے گی۔ نہ کوئی ثبوت دیا جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کی مزید انویسٹی گیشن سامنے آئے گی.
چند فیس بکی دانشور آپ کو یہ چورن بیچتے نظر آئیں گے، ان کی وال پر میری یہ پوسٹ کاپی پیسٹ کر دیجیے گا، انشاءاللہ ان کے اندر کے کیڑے کو خوب آرام آئے گا۔۔۔۔!! 🙂
اصل تکلیف اس ترقی سے ہے بس شئیر کرتے جائیں اور منافقین کا خون جلائیں 🇵🇰🔥
منقول