فلسفہ
محبت کے دو حصے ہیں۔ پہلا رومانس دوسرا جنسی فعل۔ عورت رومانس کے بنا کبھی بھی دل سے جنسی فعل کے لئے آمادہ نہیں ہوتی۔ اگر وہ ایسا کرتی محسوس ہو تو یقینا پہلا حصہ نامکمل ہے۔ عورت وقت چاہتی ہے، باتیں کرنا چاہتی ہے، موسموں کو اپنے پاٹنر کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتی، اس کے ساتھ چائے کافی پینا چاہتی ہے، اس کے ساتھ سفر کر نا چاہتی ہے، اس کی پسند کے رنگ پہنتی ہے تو تعریف سننا چاہتی ہے، اس سے گلے شکوے کر کے یہ مان رکھتی ہے کہ وہ اسے منائے گا، اگر خاموش ہو جاتی ہے تو چاہتی ہے کہ وہ اس کی خاموشی کو محسوس کرے، وہ اس کے ہاتھوں سے کھانے کے چند لقمے کھانا چاہتی ہے، اس کے ساتھ میچ، فلم و ٹی وی دیکھنا چاہتی ہے، یہ سب اس کا رومانس ہے۔
پر افسوس یک طرفہ ادب و نفسیات شناس کی طرح یہاں بھی مرد نے یہ طے کر لیا ہے(اور عورت کو بھی باور کروا دیا ہے) کہ سیکس ہی محبت ہے۔ گویا مرد کی محبت کے معانی سیکس سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔ جب کہ عورت براہ راست سیکس سے چڑ جاتی ہے، اسے اس فعل سے گھن آنے لگتی ہے۔ مگر مرد کا خیال ہے کہ سماج نے جو اس کے اندر گناہ و ثواب کا مادہ بھر دیا تھا، یہ اس کا نتیجہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ جنگلی پن اور بنا رومانس کے اس عمل سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔
اسے اپنا آپ سیکس ٹوائے یا رکھیل سا لگنے لگتا ہے، گویا اسے اپنی انسلٹ محسوس ہوتی ہے۔ اور عورت بنا محبت کے تو رہ لیتی ہے مگر بنا عزت کے رہنا اس کے اختیار میں نہیں۔ اس کا ردعمل کسی بھی صورت سامنے آ سکتا ہے۔ مگر آتا ضرور ہے۔ اسے رومانس عمر بھر چاہیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوسائٹی میں ہمیں بہت سے ایسے جوڑے بھی مل جاتے ہیں، جہاں مرد جنسی عمل کے قابل نہیں ہوتے، مگر ان کی ازدواجی زندگی دوسروں سے حسین و قابل رشک ہوتی ہے۔ کیونکہ عورت کی فطرت کسی اور چیز کی متقاضی ہے۔🍁
2=============
رسومات کے اسیر:
کسی بھی معاشرے میں رسومات کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے ، لیکن یہ رنگوں کے معاشرے میں مختلف رنگوں میں شامل ہوتا ہے۔ معاشرے کو مختلف نوعیت کے لوگ بھی رہتے ہیں ، یعنی وہاں کی قومیں رہتی ہیں ، ایک قوم کی رسومات ہمیشہ رہتی رہتی ہیں ، لیکن وہ دوسری قوم کے ل تنگ تنگی اور دشواری کا سبب بننے نہیں جاتے ہیں۔ ۔
ہمارے معاشرے میں دو مواصلات آرہی ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے ، بے سروپا رسومات ان کے علاوہ سبھی تنگی پڑھ رہی ہیں ۔ایک محرم کی رسومات ۔۔۔ دوسری میلاد النبی کی رسومات۔
کربلا کا دلڈوز واقعہ محرم 61 ھج میںہ پیش آیا جس کی وجہ سے ہر آنکھ اشک بار ھوئی اور اس کی دلخراش واقعہ یاد آرہی ہے اور سالانہ بنیادوں پر غم حسین منانے کا سلسلہ جاری نہیں ہے۔ یہ رسم تین سال گزرنے کے بعد آل بویہ کے زمانے میں شروع ہوگئی۔
عباسی خلافت کے دو سو سال زوال اور انحطاط کا سال کیا تھا ۔عباسی خلیفہ بعض طاقتور خاندانوں کے زیر اثر اثر آگیا۔ عراق میں آل بویہ کا اقتدار جمادی الاول 334 ھج ھمحرم 447 ھج تک (عیسوی کتاب 945 ء سے 1057 ء) قریب قریب ایک سو سال کی مدت تھی۔ آل بویہ مسلکا شیعہ پھر عباسی ملٹک سنی حالاتری تھیم۔
دارلحکومت بغدادی میں بھی شیعہ آبادی اقلیت میں نہیں تھی ، زیادہ تر شیعہ "کرخ" نامی محلے میں آباد ہے۔ آل بویہ سے پہلے بغداد میں شیعہ۔ سنی بدعنوانی کا واقعہ کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ لینکن پہلے بویہی امیر ، معز الدولہ کے دور میں دو مقامات پر تعارف کروایا گیا تھا۔ "یوم عاشور" منیٰ کا آغاز کیا ہوا ، دس محرم کوک تمام دوکانیں اور کاروبار بند رہنے کا حکم دیا ، ایک سرکاری حکم نامہ دس محرم کو عوامی سوگ کا دن قرار دیا گیا ، لوگوں کو کالے ممی لباس پہننا اور ماتم کرنا ، ماتمی جلوسوں کے مختلف راستوں پر تھا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری "عید غدیر" کی رونمائی تھی۔ جیسے معز الدولہ نے سرکاری حکم نامے کو خوشی کا دن قرار نہیں دیا ، اس دن شہر کو سجانے اور خوشی منانے کا حکم جاری رہا۔
بغداد کی سنی آبادی نے اس کا رد عمل ظاہر کیا اور اس نے دو محب کوت منانے کا آغاز کیا۔ اس نے 18 محرم کو حضرت مصعب ابن زبیر (حضرت عبداللہ ابن زبیر بھائی) کی قبر پر اجتماعی طور پر شرکت کی۔ حاضری دینی شروع ہوگئی۔
سنیوں کو دوسری مرتبہ 26 ذی الحج کو "یوم الغار" کا نام مننی شروع ہوا تھا۔ اس دن کی یاد میں منائی کی بات تھی جب سفر ہجرت کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ابو بکر صدیق نے غار ثور میں پوشیدگی کی۔ اختیار کی تھی۔
اس کے بعد فتنہ بڑھاوے۔ بار بار ہوا دی دیواروں پر صحابہ کرام کا نام لکھا ، اس کے ساتھ ہی مغلظات بھی لکھی گئیں…. ۔
"محل میں جو مساجد کی زندگی میں شیعوں کی دوائیوں کا اثر رہتا ہے" اذان فجر میں "حیات علی خیر العمل" اس کا ذکر تو سنی ہی رہا تھا ، اعتماد کی بات ہے "الصلوۃ خیر من النوم" اس نے کہا۔ بار بار کرپشن۔
محرم کے جلوسوں ، اور دیگر مسلکی مقامات کے انعقاد کو سنیوں کے شہریوں کے آبادی نے منصوبہ بنایا تھا کہ ان کی رہائش اور بدعنوانی شروع ہوگئی ہے ۔آئل بویہ کے 113 سالہ دور اقتدار میں محرم کا کوئی مہینہ بھی نہیں تھا جس میں چھوٹے بڑے فسادات ہوئے تھے۔
اس وجہ سے بغداد کھنڈر بننے والوں نے لوگوں کو پریشانی کا نشانہ بنایا ، مشرقی بغداد سے سکونت ترک کے مغربی بغداد کی طرف آباد ہونا شروع ہوا۔ اس مسئلے میں روز بروز کے ل بڑ بڑھتے ہوئے مقامات فقہاء ، علما اور مذہبی اسکالر بھی جھگڑے میں رہتے ہیں۔
آل بویہ کے 113 برس دور اقتدار میں کم مواقع کے موقع پر حالات بگڑ گئے کہ فتنے پر قابو پانے کے لئے احکامات کا اجراء ہوا۔
1 ۔۔۔۔۔۔۔ 367 ھج میں بویہی امیر عضدالدولہ بغداد کے سارے فقہاء اور علما پر (مقام شیعہ ہوں یا سنی) صحابہ کرم کے بارے میں بھی کسی حصہ میں شامل ہونے پر پابندی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔
2 ۔۔۔۔۔۔۔ 382 ھج میں وزیر ابوالحسن الکوکبی نے بغداد کے شیعوں کی دکان کا حکم دیا تھا کہ وہ عاشور اور عید غدیر کے ایام منانے موقوف کو دیں۔
۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔ 39 3 یو امیر امیر امیر الجیوش (سپہ سالار اعظم) نے حکم دیا کہ سنی اور شیعہ فی الفور آپ کے مذہبی مقامات کا انعقاد بند کرو۔ آئیہ پابندی 6 سال تک رہ گئی ہے ۔پھر سیاسی تبدیلی کے ساتھ اس کی پابندی بھی ہے۔ ختم ہو گئ۔
اس بے جا رسومات کے بعد اہل بغداد بھی اس کے ساتھ حاضر ہوئے اور اس سے بھی آگاہ ہوں گے۔
ایک بار بغداد میں جو آگ لگی ہے اس میں سرکاری کتب خانہ بھی جلدی کی شکل میں موجود تھا ، جہاں ہزارہا مخطوطات اور کتابیں جل کر خاکسٹر ہو گئیں۔ جو کتابیں بچا لی گئیں ان کی تعداد بھی متجاوز تھیج تھی ، یہ کتبہ خانہ تھا جو جہلا کی جہالت کی نذر ہو گئی۔
آل بویہ کے 113 سالہ دور اقتدار کے بعد آل سلاجکا برسر اقتدار آئے تھے۔ عباسی خلیفہ جس طرح پہلے آل بویہ کا زیر اثر تھا ، اب سلجوقیوں کے زیر اثر اثر آگیا۔ اس نے آہستہ آہستہ وہ ساری رسومات ختم کراؤ جو تمام بویہ کے زمانے میں جاری رہی۔ سب سے پہلے فجر کی آذان سے "حیا علی خیر العمل" کی جگہ "الصلوۃ خیر من النوم" کو واپس لایا گیا۔ اس کے بعد سرکاری سرپرستی ختم ہو جائے گی اور دیگر مقامات کا انعقاد بھی محدود ہو گیا۔
اہل بغداد نے اطمینان کا سانس لیا ، مشرقی سمت میں واپس آ گیا اور سالانہ بدعنوانی ایک ڈراؤنا خواب کی طرح بالآخر ختم ہو گئی۔
نگارسجاد ظہیر
==========================+=+=======
#ماتم__ہو__تو__ایسا__ہو
شیعہ مسلک کے لیے میرے دل میں ایک بہت پرانی خواہش ہے ، جو آج تک پوری نہ ہو سکی۔۔۔
تو خواہش یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان ملک کے تمام ریگستانوں، صحراؤں میں ایک ایک امام بارگاہ تعمیر کرواۓ۔۔
اور پھر یہ شعیہ حضرات یکم محرم کو بغیر کسی سازو سامان کے صحرا میں چلے جائیں وہاں اپنے خیمے لگائیں اور پھر بھوکے پیاسے،
تپتی ریت پر دس محرم تک شہدائے کربلا کے غم میں ماتم کریں، پھر ان پر شہدائے کربلا کی اذیتیں واضح ہونگی، پھر یہ اس حقیقت سے آشنا ہونگے کہ
کیسے بھوکی پیاسی آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حق پر ڈٹی رہی۔۔۔۔
یوں گلیوں بازاروں میں جلوس نکال کر ، عوام کے لیے مشکلات کھڑی کر کے ، موبائل سروس بند کر کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔
اے سی، ائیر کولر کے سامنے بیٹھ کر دو گھنٹے مجلس کر کے، تم لوگ کیسے غم حسین کی حقیقت جان سکتے ہو۔۔۔
کاش کے میری خواہش احکام بالا تک پہنچ سکے، اور شیعہ حضرات کو اس خواہش سے بلکل اعتراض نہیں ہوگا، آخر آپ لوگوں کے حق کی بات کر رہا ہوں ، کیوں کہ
میرے اور آپکے دین میں تو یہی ہے ناں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں دوسرے مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچی چاہیے،۔۔۔
تو میرے شیعہ بھائیوں بہنوں اپنے حق کیلئے آواز اٹھاؤ، حکومت سے مطالبہ کرو، تاکہ آپکی وجہ سے جو دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے آپ اس سے بچ سکیں۔