ہم سب گنہگار, خطا کار اور ریا کار ہیں۔ اللہ معاف کرے ہماری خطاؤں کو۔
کسی بھی مسلمان کی کیا اوقات کہ وہ اہل بیت, نبی ﷺ کے گھرانے کی اہمیت میں تفریق کرسکے۔
اسی طرح صحابة کرام اور نبی کریم ﷺ کے رفقاء کو لعنت ملامت کرنے والے کون۔
جب دونوں فرقے کے جید علماء اس بحث کو دہرانے سے منع کر چکے ہیں تو پھر بحث فضول ہے۔
آج کوئ اپنے بچے کا نام یزید یا شمر کیوں نہیں رکھتا۔
میرے آقا محمدﷺ کو پہلے ہی اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہالسلام نے آکر بتا دیا تھا کہ آپکی امت کیا کرنے والی ہے۔
بہرحال اللہ سب کو ہدایت اور عقل دے۔
اور اس وقت کے یزیدیوں کے سامنے کلمة حق کہنے کی توفیق دے۔ آمین۔
کسی کی دل آزاری ہوئ ہو تو دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔
[9/4, 4:18 PM] bluemoon132@gmail.com: بے شک ہم سب گنہگار ہیں۔اور آپکی بات سے 100% اتفاق کرتا ہوں کے کوئی مسلمان کسی بھی مسلک کا ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کے خلاف نہیں ہو سکتا ہے۔اور شیعہ علماء اکرام اور اہل سنت اور سب اس بات پر متفق ہیں کے واقعہ کربلہ میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ میں بھیجا اپنا پیغام دے کر جو لوگ میرے ہاتھ پر بیت کرنا چاہتے ہیں تم ان سے جا کر ملو۔تو وہاں کے لوگوں نے انکا بہترین استقبال کیا اور تو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک قاصد کے زرئعیے پیغام بھیجا ہے کہ آپ یہاں آ جائیں۔اور انکے سے بیت لے لیں۔اس کے بعد آپ اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ انکے گھر چلے گئے اور پھر عصر کی نماز ادا کرنے مسجد چلے گئے ۔جب عصر کی نماز کے لیے پہنچے تو بہت بڑی تعداد میں اہل کوفہ انکے ساتھ تھے اور نماز ادا کی لیکن جیسے ہی نماز ختم ہوئی تو حضرت مسلم بن عقیل نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تو سوائے چند افراد کے پیچھے صفیں خالی تھیں۔وہ لوگ کہاں چلے گئے یہ آپ سوچنے پر پریشان ہوئے اور پھر فورا آپ نے ایک قاصد کے ہاتھ ایک خط لکھ کر بھیجا کہ آپ کوفہ نا آئیں یہاں کے لوگ دھوکے باز ہیں اور ہمارے ساتھ دھوکہ ہو گیا۔جب یہ خط بھیجا گیا تو قاصد کا راستہ شاید مختلف تھا کہ انکی ملاقات حضرت امام حسین عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ سے نا ہو سکی۔اور وہ کوفہ پہنچ گئے۔ اور پھر لشکر یزید وہاں پر پہنچ گیا اور انکو دعوت دی کے آپ یزید کے پاس چلیں مگر آپ نے انکار کر دیا۔ یزید نے بھی یہ حکم دیا تھا کہ انکو نہایت عزت و احترام سے لانا مگر شمر اور اسکے ساتھیوں نے یزید کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔اور پھر آپکے اہل و عیال کے گرد گھیرا تنگ ہو کر دیا اور بالآخر ان مردودوں نے آپکو اور آپکے اہل خانہ کے 72 لوگوں کو شہید کر دیا۔ اور وہ سب جنت میں چلے گئے اور قاتلوں نے اپنے نصیب میں جہنم لکھوا لی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض مسجد ضرار اور کوفہ والوں کو تھا۔وہ یزید کے ساتھی تھے۔ وہ لوگ رسول اللہ ص۔ع۔و۔و کے لیے بھی سازیشیں کرتے تھے تو وہ لوگ منافق تھے اندر سے منافق اوپر سے مسلمان پھر انکے ہی ساتھیوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا پھر حضرت عثمان غنی کو شہید کیا کیونکی مسجد ضرار والے اندر سے منافق تھے اور پھر یہ تحریک مقام کربلہ پر اپنے انجام کو پہنچی اور وہ سلسلہ کسی نا کسی طریقے سے ابھی بھی چل رہا ہے۔بحرحال ہمارا مقصد امت مسلمہ کو ایک کرنا اور پاکستان کو مضبوط کرنا ہے جس کے لیے علماء اکرام اہل تشیعہ اور اہل سنت سپہ صحابہ سب مل کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں ۔اور میں یہ بات نہایت وثوق سے کہتا ہوں کہ اہل تشیعہ کبھی صحابہ کے خلاف نہیں بولتے بلکہ انکی صفوں میں گھسے دوسرے منافق اور غیر مسلم ہیں جن کو کلمہ تک نہیں آتا۔ جو لوگ ہماری مقدس ماں بی بی عائشہ جن پر ہم اور ہمارے ماں باپ قربان انکے خلاف کیسے کوئی بولے گا جو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کی رشہ میں نانی اماں ہیں اس لیے یہ بات غیرمسلم تو کر سکتا ہے ملمان نہیں ۔اللہ پاک ہم سب کو دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیے ۔اور لکھنے میں یا الفاظ کے چناؤ میں جو غلطی سر زد ہوئی ہو اسکے لیے سب سے معافی کا طلب گار ہوں ۔