http://mirzawaseembaig.blogspot.com
گھریلو حالات ٹھیک نہیں تھے، سر پر کوئی سربراہ بھی نہیں جو کما کر دے۔۔۔۔ رکشہ چلانے والی تین باہمت بہنوں کی کہانی جو کبھی کسی کی محتاج نہ بنیں
لاہور سے تعلق رکھنے والی تین محنت کش بہنیں، جنہوں نے دوسروں کی محتاجی پر زندگی گزارنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت خود اور مشقت سے باہر نکل کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کو ترجیح دی اور رکشہ ڈرائیونگ کر کے دیگر خواتین کے لئے ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔
ان تینوں با ہمت خاتون کے نام نسرین بی بی، صائمہ خاتون اور شہناز بی بی ہے جنہوں نے قسطوں پر رکشے لے کر نوکری کا آغاز کیا اور اس سے وہ اپنا گزر بسر کر رہی ہیں۔
نسرین بی بی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گھریلو حالات ٹھیک نہیں تھے، بچے چھوٹے ہیں اور سر پر کوئی سربراہ بھی نہیں ہے جو کما کر دے، لہٰذا وہ خود ہی محنت کرنا چاہ رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک بہن کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور دوسری بہن کا شوہر بیمار ہے، اس لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کی بجائے انہوں نے باہر نکل کر کچھ کرنے کا سوچا۔
نسرین بی بی کے مطابق ان تینوں بہنوں نے پہلے رکشہ چلانا سیکھا اور پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ اقساط پر رکشہ لے لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری دونوں بہنیں رکشہ چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مانگنے یا اچھا برا کام کرنے سے یہ کام بہتر ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں بہت مشکلات درپیش ہوئی تھیں۔ کھانے پینے کے لئے بھی چیزیں میسر نہیں تھی، بس لوگ تھوڑی بہت مدد کر دیتے تھے۔
دوسری بہن صائمہ نے بتایا کہ ہماری کوئی آمدنی نہیں تھی۔ اپنی ایک دوست، جو رکشہ چلاتی تھی، اس سے رکشہ چلانا سیکھا۔
میں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے رکشہ چلانا شروع کیا۔ میں اپنے گھر کے اخراجات اٹھا کر بچوں کو تعلیم دلوا رہی ہوں۔
تیسری بہن شہناز بی بی نے ویڈیو بنوانے اور کیمرے کے سامنے خیالات کا اظہار کرنے سے معذرت کی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اپنی بہنوں کے ساتھ رکشہ چلاتی ہیں اور اپنا مناسب روزگار کما کر خوش ہیں۔
نسرین بی بی نے بتایا کہ ان تینوں بہنوں کو یہ خوف تھا کہ باہر نکل کر کوئی بھی کام کیا تو لوگ تنگ کریں گے لیکن جب ان کی بہن صائمہ نے بتایا کہ ان کی ایک دوست رکشہ چلاتی ہے تو ہم نے اسے رکشہ سیکھنے کا مشورہ دیا، اس نے اہنی دوست سے رکشہ چلانا سیکھا اور ہم نے اپنی اس بہن کو قسطوں پر رکشہ دلوایا۔
پھر اس نے باقی دو بہنوں کو رکشہ چلانا سکھا دیا۔ اس کے بعد ان دونوں نے بھی اپنا زیور بیچا اور قسطوں پر رکشے خرید لیے۔
نسرین کا کہنا ہے کہ اب وہ رکشہ چلا کر اپنا باعزت روزگار کما رہی ہیں۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں ان کے خیالات تھے کہ باہر نکلنا ان کے لیے مشکل ہو گا، وہ غلط ثابت ہوئے۔
بقول نسرین انہیں حیرانی ہوئی جب باہر لوگوں نے انہیں رکشہ چلاتے دیکھ کر حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے بتایا کہ اب لوگ روک کر سلام کرتے ہیں اور ان کی اس محنت کی تعریف بھی کرتے ہیں۔