کچھ تصاویر فرضی لگائی گئ ہیں
۸
باب ۱
حضرت ابو محمد امام جعفر صادق کے حالت و مناقب
تعار ف
آپ کا اسم گرامی جعفر صادق اور کنیت ابو محمد ہے۔ آپ کے مناقب و کرامات کے متعلق جو کچھ بھی تحریر کیا جائے بہت کم ہے۔کیونکہ آپ امت محمدی کے لئے نہ صرف باشاہ اور حھت نبوٰ کے لئے روشن دلیل ہیں۔بلکہ صدق و تحقیق پر عمل پیرا اولیاء کرام کے باغ کا ثمر آل ِعلی سر دار انبیاء کے جگر گوشہ اور صحیح معنوں میں وارث نبی بھی ہیں اور
آپ کی عظمت و شان کے اعتبار سے ان خطابات کو کسی طرح بھی غیر موزوں نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات ہم پہلے ہی عرض کر
چکے ہیں کہ انبیاء و صحابہ اور اہل بیت کے حالات اگر تفصیل کے ساتھ احاطہ تحریر میں لائے جائیں تو اس کے لئے علیحدہ ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ اسی لئے ہم اپنی تصنیف میں حصول برکت کے لئے صرف انہیں اولیاء کرام کے حالات سے ابتدا کر رہے ہیں۔
حالات
آپ کا درجہ صحابہ کرام کے بعد ہی آتا ہے لیکن اہل بیت میں شمولیت کی وجہ سے نہ صرف باب طریقت ہی میں آپ سے ارشادات منقول ہیں بلکہ بہت سی روایتیں بھی مروی ہیں اور انہیں کثیر ارشادات میں سے بعض چیزیں بطور سعادت ہم بیان کر رہے ہیں۔ اور جو لوگ آپ کے مسلک پر عمل پیرا ہیں وہ گویا بارہ امام کے مسلک گامزن ہیں۔کیونکیہ آپ کا مسلک بارہ امام کے مسلک کا قائم مقام ہے۔ اور اور اگر صرف تنہا آپ ہی کے حالات و مناقب بیان کر دیئے جائیں تو وہ بارہ اماموں کے مناقب کا ذکر تصور کیا جائے گا۔آپ نہ صرف مجموعہ کمالات و پیشوا ئے مشائخ ہیں۔بلکہ ارباب ذوق اور عشاق و زہاّد کے مقتدا بھی ہیں نیز آپ نے اپنی بہت سی تصانیف میں رموز ِ خدا وندی کو بڑے اچھے پیرائے میں واضح فرمایا ہے۔ اور حضرت امام باقر کے بھی کثیر مناقب روایت کئے ہیں۔
غلط فہمی کا ازالہ
مصنف فرماتے ہیں کہ مجھے ان کم فہم لوگوں پر حیت ہوتی ہے جن کا عقیسہ یہ کہ اہل سنت نعوذ بالللہ اہل بیت سے معاندت رھتے ہیں۔ جب کہ صحیح معنوں میں اہل سنت ہی کا اہل بیت سے محبت رکھنے والوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان کے عقائد ہی میں یہ سے داخل ہے کہ رسول ِ خدا پر ایمان لانیکے کے بعد انکی اولاد سے محبت کرنا لازمی ہے۔
امام شافعی پر رافضیت کا الزام
کس قدر تعصب آمیز بات ہے کہ اہل بیت ہی کی محبت کی وجہ سے حضرت امام شافعی کو رافضی کا خطاب دے کر قید وبند کی صعوبتوں میں ڈال دیا گیا۔جس کے متعلق امام صاحب خود اپنے ہی ایک شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ اگر اہل بیت سے مووٗت کا نام رفض ہے تو پھر پورے عالم کو میرے رافضی ہونے پر گواہ رہنا چاہیے۔ اور اگر بالفرض اہل بیت اور صحابہ کرام سے محبت کرنا ارکان ِ ایمان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح حضور اکر م ﷺ کے کے مراتب سے آگاہی حاصل کرتاہے۔ اسی طرح خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام اور اہل بیت کے مراتب کع بھی حسب مراتب افضل تصور کرے۔
سنّی کی تعریف
صحیح معنوں میں اسی کو سنی کہا جا سکتا ہے۔جو حضور اکرم ﷺ سے رشتہ رکھنے والوں میں سے کسی کی فضیلت کا بھی منکر نہ ہو۔ ایک روایت ہے کہ کسی نے حضرت امام ابو حنیفہ سے دریافت کیا کہ نبی ِکریم ﷺ کے متعلقین میں سب سے زیادہ افضل کون ہے۔ فرمایا کہ بوڑھو ں میں حضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمر فاروق ؓ ، اور جوانوں میں حضرت عثمان ِ غنی ؓ، اور حضرت علی ؓ ، اور عورتوں میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ رضی اللہ تعالیٰ دعنہم اجمعین اور لڑکیوں میں حضرت بی بی فاطمہ ُزہرا رضی اللہ تعالیٰ دعنہم اجمعین۔
عظمت ِ اولیاء کا اظہار
خلیفہ منصور نے ایک شب اپنے وزیرکو حکم دیا کہ جعفر صادق کع میرے رو برو پیش کرو تاکہ میں ان کو قتل کر دوں۔ وزیر نے عرض کیا دنیا کو خیر باع کہہ کر جو شخص عزُلت نشین ہو گیا ہو۔ اس
کو قتل کرنا قرین مصلحت نہیں۔لیکن خلیفہ نے غضبناک ہو کر کہا کہ میرے حکم کی تعمیل تم پر ضروری ہے۔ چنانچہ مجبوراً جب وزیر
جعفر صادق کو لینے چلا گیا تو منصور نے غلاموں کو ہدایت کر دی کہ جِس وقت میں اپنے سَر سے تاج اتاروں تو تم فی الفورصادق
قتل کر دینا۔لیکن جب وزیر کے ہمراہ آپ تشریف لائے تو آپ کے عظمت و جلال نے خلیفہ کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ اضطراری طور پر آپ
کے استقبال کے لئے کھڑاہو گیا۔ اور نہ صرف آپ کو صدر مقام پر بٹھایا بلکہ خود بھی مودبانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اور
اور ضروریا ت کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ میری سب سے اہم حاجت و ضرورت یہ ہے کہ آیندہ پھر کبھی مجھے دربار میں
طلب نہ کیا جائے تاکہ میری عبادت و ریاضت میں خلل واقع نہ ہو چنانچہ منصور نے وعدہ کر کے عزت و احترام کے ساتھ آپ کو رخصت
کیا۔ لیکن آپ کے دبدبے کا اس پر ایسا اثر ہو کہ لرزہ براندام ہو کر مکمل تین شب و روز بے ہوش رہا۔ لیکن بعض روایات مین ہے کہ تین نمازوں کے قضا ہونے کی حد تکغشی طاری رہی۔ بہرحال خلیفہ کہ یہ حالت دیکھ کر وزیر و غلام حیرت زدہ رہ گئے۔ اور جب خلیفہ
سے اس کا حال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ جس وقت جعفر صادق میرے پاس تشریف لائے تو ان کے ساتھ ایک اتنا بڑا ازدھا
تھا جو اپنے جبٹوں کے درمیان پورے چبوترے کو گھیرے میں لے سکتا تھا۔ اور وہ اپنی زبان میں مجھ سے کہ رہا تھا۔کہ اگر تونے زرا
سی بھی گستاخی کی تو تجھ کو چبوترے سمیت نگل جاوٗں گا۔چنانچہ اس کی دہشت مجھ پر طاری ہو گئی۔ اور میں نے آپ سے معافی
طلب کر لی۔
ایک مرتبہ حضرت داوٗد طائی نے حاضر خدمت ہو کر جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں اس لئے مجھ کو کوئی نصیحت فرما ئیں۔
لیکن آپ خاموش رہے اور جب دوبارہ داوٗد طائی نے کہا کہ اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالی نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے
اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ پر بمنزلہ فرض عین ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو یہ خوف لگا ہوا ہے کہ روزِمحشر کہیں میرے جدّاعلیٰ ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ تو نے خود میری اتباع کیوں نہیں کی؟ اس لئے کہ
نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ پر موقوف ہے
۔ یہ سن کر داوٗد طائی کو بہت عبرت ہوئی۔اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ جب اہل بیت پر خوف کے غلبہ کا یہ عالم ہے تو
میں کس گنتی میں آتا ہوں۔اور کس چیز پرفخر کر سکتا ہوں۔
نفاق اور نفرت
جعفر صادق کو لینے چلا گیا تو منصور نے غلاموں کو ہدایت کر دی کہ جِس وقت میں اپنے سَر سے تاج اتاروں تو تم فی الفورصادق
قتل کر دینا۔لیکن جب وزیر کے ہمراہ آپ تشریف لائے تو آپ کے عظمت و جلال نے خلیفہ کو اس درجہ متاثر کیا کہ وہ اضطراری طور پر آپ
کے استقبال کے لئے کھڑاہو گیا۔ اور نہ صرف آپ کو صدر مقام پر بٹھایا بلکہ خود بھی مودبانہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی حاجات اور
اور ضروریا ت کے متعلق دریافت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ میری سب سے اہم حاجت و ضرورت یہ ہے کہ آیندہ پھر کبھی مجھے دربار میں
طلب نہ کیا جائے تاکہ میری عبادت و ریاضت میں خلل واقع نہ ہو چنانچہ منصور نے وعدہ کر کے عزت و احترام کے ساتھ آپ کو رخصت
کیا۔ لیکن آپ کے دبدبے کا اس پر ایسا اثر ہو کہ لرزہ براندام ہو کر مکمل تین شب و روز بے ہوش رہا۔ لیکن بعض روایات مین ہے کہ تین نمازوں کے قضا ہونے کی حد تکغشی طاری رہی۔ بہرحال خلیفہ کہ یہ حالت دیکھ کر وزیر و غلام حیرت زدہ رہ گئے۔ اور جب خلیفہ
سے اس کا حال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ جس وقت جعفر صادق میرے پاس تشریف لائے تو ان کے ساتھ ایک اتنا بڑا ازدھا
تھا جو اپنے جبٹوں کے درمیان پورے چبوترے کو گھیرے میں لے سکتا تھا۔ اور وہ اپنی زبان میں مجھ سے کہ رہا تھا۔کہ اگر تونے زرا
سی بھی گستاخی کی تو تجھ کو چبوترے سمیت نگل جاوٗں گا۔چنانچہ اس کی دہشت مجھ پر طاری ہو گئی۔ اور میں نے آپ سے معافی
طلب کر لی۔
نجات عمل پر موقوف ہے نسبت پر نہیں ایک مرتبہ حضرت داوٗد طائی نے حاضر خدمت ہو کر جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہل بیت میں سے ہیں اس لئے مجھ کو کوئی نصیحت فرما ئیں۔
لیکن آپ خاموش رہے اور جب دوبارہ داوٗد طائی نے کہا کہ اہل بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالی نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے
اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ پر بمنزلہ فرض عین ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ مجھے تو یہ خوف لگا ہوا ہے کہ روزِمحشر کہیں میرے جدّاعلیٰ ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر بیٹھیں کہ تو نے خود میری اتباع کیوں نہیں کی؟ اس لئے کہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں بلکہ اعمال صالحہ پر موقوف ہے۔ یہ سن کر داوٗد طائی کو بہت عبرت ہوئی۔اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ جب اہل بیت پر خوف کے غلبہ کا یہ عالم ہے تو
میں کس گنتی میں آتا ہوں۔اور کس چیز پرفخر کر سکتا ہوں۔
نفاق اور نفرت جب آپ تاکی دنیا ہو گئے تو حضرت ابو سفیان ثوری ؒ نے حاضر خدمت ہو کر فرمایا کہ مخلوق آپ کے تارک الدنیا ہونے سے آپ کے فیوض عالیہ سے محروم ہو گئی ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں مندرجہ ذیل دو شعر پڑ ھے ؎
٭ کسی جانے والے انسان کی طرح وفا بھی چلی گئے اور لوگ اپنے خیالات میں غرق رہ گئے ؎
گو بظاہر ایک د وسرے کے ساتھ محبت و وفاکرتے ہیں لیکن ان کے قلوب بچھووٗں سے لبریز ہیں۔
یعنی مخلوق کی نگاہوں میں تو یہ عمدہ لباس ہے۔لیکن حق کے لئے یہی کھرُدرا ہے۔
دانشمند کون ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے امام ابوحنیفہ سے سوال کیاکہ دانشمند کی کیا تعریف ہے۔امام ابو حنیفہ نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کی علامت ہے۔ جواب دیا کہ جو بھلائی او ر برائی میں امتیاز نہ کر سکے۔ آپ نے کہا کہ یہ امتیاز تو جانور بھی کر لیتے ہیں۔ کیونکہ جو انکی خدمت کرتا ہے ان کو ایذا نہیں پہنچاتے اور جو تکلیف دیتا ہے۔اس کو کاٹ کھاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے پوچھا کہ پھر آپ کے نزدیک دانشمندی کی کیا علامت ہے۔ جواب دیا کہ جو دو بھلائیوں میں سے بہتر بھلائی کو اختیار کرے؛اور دو برائیوں میں سے مصلحتاکم برائی پر عمل کرے۔
کبریائی رَب پر فخر کرنا تکبرّ نہیں ہے کسی نے آپ سے عرض کیا کہ ظاہری و باطنی فضل و کمال کے باوجود آپ میں تکبر پایاجاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں متکبر تو نہیں ہو ں البتہ جب میں نے کبِر کو ترک کر دیا تو میر ے رب کی کبریائی نے میرا احاطہ کر لیا۔ اس لئے میں اپنے کبِر پر ں ازاں نہیں ہو ں۔ بلکہ میں تو اپنے رب کی کبِریائی پر فخر کرتا ہوں۔ جب آپ تارک دنیا ہو گئے تو حضرت
11
سبق آموز واقعہ کسی شخص کی دینار کی تھیلی کھو گئی تو اس نے آپ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہا کہ میری تھیلی تم ہی نے
چرائی ہے۔ حضرت جعفر نے اس سے سوال کیا اس میں کتنی رقم تھی؟ اس نے کہا دو ہزار دینار چنانچہ گر لیجا کر آپ نے اس کو دو ہزار دینار دے دئیے۔ اور بعد میں جب اس کی کھوئی ہو ئی تھیلی کسی دوسری جگہ سے مل گئی تو اس نے پورا واقعہ بیان کر کے معافی چاہتے ہوئے۔آ پ سے رقم واپس لینے کی درست کی لیکن آپ نے فرمایا کہ ہم کیس کو دے کر واپس نہیں لیتے۔ پھر جب لوگوں سے اس کو آپ کا اسم گرامی معلوم ہوا تو اس نے بے حد ندامت کا اظہار کیا۔
حقِ رفاقت ایک مرتبہ آپ تنہا اللہ اللہ کا ورد کرتے ہوئے کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک اور شخص بھی اللہ اللہ کا
ورد کرتاہوا آپ کے ساتھ ہو گیا۔ اس وقت آپ کی زبان سے نکلہ کہ اے اللہ! اس وقت میرے پاس کوی بہتر لباس نہیں ہے۔ چنانچہ یہ کہتے ہی غیب سے ایک بہت قیمتی لباس نمودار ہوا۔اور آپ نے زیب تنکر لیا۔ لیکن اس شخص نے جو آپ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ عرض کیا کہ میں بھی تو اللہ اللہ کا ورد کرنے میں آپ کا شریک تھا۔ لہذا ٓپ اپنا پرانا لباس مجھے عنایت فر ما دیں۔ آپ نے اپنا لباس اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔
طریقہ ہدایت کسی نے آپ سے عرض کیا کہ یہ تو مجھے بھی علم ہے لیکن یہ تو امت محمدی ہے جس میں ایک تو یہ کہتا ہے کہ یعنی میرے قلب نے اپنے پرور دگار کو دیکھا اور اور دسرا یہ کہ میں کہتا ہوں کہ میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جو مجھ کو نظر نہیں آتا یہ سن کر آپ نے حکم دیا کہ اس شخص کے ہاتھ پاوٗں باندھ کر دریائے دجلہ میں ڈالدیا۔ چانچہ جب اس کو پانی میں ڈالدیا گیا اور پانی نے اس کو اوپر پھینکا تو اس نے حضرت سے بہت فریاد کی۔ لیکن آپ نے پانی کو حکم دیا کہ اس کو خوب اچھی طرح اور نیچے غوطے دئے جائیں۔ اور جب کئی مرتبہ پانی نے گوطے دئیے او ر وہ لب ِ مرگ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ سے امانت کا طالب ہوا۔ اس وقت حضرت نے اس کو پانی میں سے باہر نکلوایا اور حواس درست ہونے کے بعد دریافت فرمایا کہ اب تو اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا۔ اس نے عر ض کیا کہ جب جبتک میں دوسروں سے اعانت کا طلب گار رہا۔اس وقت تک تو میرے سامنے ایک حجاب سا تھا لیکن جب اللہ تعالی سے اعانت کا طالب ہوا تو میرے قلب میں ایک سوراخ نمودار ہو اور پہلا سا اضطرار ختم ہو گای۔جیسا کہ باری تعالیٰ کا قول ہے ! کون ہے جو حاجتمند کے پکارنے پر اس کا جواب دے! آپ نے فرمایا کہ جب تک تونے صادق کو آواز دی اس وقت تک تو جھوٹا تھا اور اب قلبیسوراخ کی حفاظت کرنا۔
ارشادات
فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے کہ الل تعالیٰ کسی خاص سے پر موجود ہے یا کسی شے سے قائم ہے وہ کافر ہے۔ فرمایا کہ جس معصیت سے قبل انسان میں خوف پیدا ہو وہ اگر توبہ کرے تو اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اور جس عبادت کی ابتدا مامعں رہانا اور آخر میں خود بینی پیدا ہونا شروع ہو تو اس کا نتیجہ بعدالٰہی ک شکل میں نمو دار ہوتا ہے۔ اور جو شخص عبادت پر فخر کرے وہ گناہگار ہے۔ اور جو مصیبت پر اظہار ندامت کرے وہ فرمانبردار ہے۔ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ صبر کرنے والے درویش اور شکر کرنے والے مالدار میں آپ کے نزدیک کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا کہ صبر کرنے والے درویش کو اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ مالدار ہمہ اوقات اپنے مال کا تصور میں رہتا ہے اور درویش کو صرف اللہ تعالیٰ کا خیال جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ توبہ کرنے والے ہی عبادت گزار ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ ذکر الٰہی کی تعریف یہ ہے کہ جس میں مشغولیت کے بعد دنیا کہ ہر شے کو بھول جائے کیونکہ اللہ تعالی کی ذات ہر شے کا نعم البدل ہے۔ کی تفسیر کے سلسلہ میں آپ کا قول ہے کہ اللہ تعالی ٰ جش کو چاہتا ہے۔اپنی رحمت سے خاص کر لیتا ہے۔ یعنی تمام اسباب و وسائل ختم کر دیئے جاتے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ عطائے الٰہی بلا واسطہ ہے۔ نہ کہ بالواسطہ۔ فرمایا کہ صاحب کرامت وہ ہے جو اپنی ذات کے لئے نفس کی سرکشی سے آمادہ بجنگ رہے کیونکہ نفس سے جنگ کرنا اللہ تعالیٰ کی رسائی کا موجب ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اوصاف مقبولیت میں سے ایک وصف الہام بھی ہے جو لوگ دلائل سے الہام کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں وہ بد دین ہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے میں اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔
جتنا کہ رات کی تاریکی میں سیاہ پتھر پر چیونٹی رینگتی ہے فرمایا کہ عشق ِالٰہی نہ تو اچھا ہے اور نہ برا ۔ فرمایا کہ مجھ پر رموز حقیقت اس وقت آشکار ہوئے جب میں خود دیوانہ ہو گیا۔ فرمایا کہ نیک بختی کی علامت یہ بھی ہے کہ عقلمند دشمن سے واسطہ پڑ جائے۔ فرمایا کہ پانچ لوگوں کی صحبت سے اجتناب کرنا چاہیے۔اول جھوٹے سے کیونکہ اس سے معیت فریب میں مبتلہ کر دیتی ہے۔ دوم بیوقوف سے کیونکہ جسقدر وہ تمہاری منفعت چاہے گا اسی قدر نقصان پہنچے گا۔ سوم کنجوس سے کیونکہ اس کی صحبت سے بہترین وقت رائیگان ہو جاتا ہے۔چہارم بزدل سے کیونکہ یہ وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دیاتا ہے۔ پنجم فاسق سے کیونکہ ایک نوالے کی طمع میں کنارہ کش ہو کر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں فردوس و جہنم کا نمونہ پیش کر دیا ہے۔ کیو نکہ آسائش جنت ہے اور تکلیف جہنم ہے اور جنت کا صرف وہی حقدار ہے جو اپنے تمام امور اللہ تعالیٰ کو سونپ دے۔ اور دوزخ اس کا مقدر ہے جو اپنے امور سرکش نفس کے حوالے کر دے فرمایا کہ اگر معاندین کی صحبت سے اولیا کرام کو ضرر پہنچ سکتا تو فرعون سے آسیہ کو پہنچتا۔ اور اگر اولیاء کی صحبت دشمن کو نافع ہوتی تو سب سے پہلے حضرت نوح اور حضرت لوط کی ازواج کو فائدہ پہنچتا۔لیکن قبض اور بسط کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
اِعتذار
گو آ پ کو فضائل و ارشادات بہت زیادہ ہیں لیکن طوالت کے خوف سے حصو ل سعادت کے پیش ِ نظر اختصار کے ساتھ بیان کر دیئے گئے ہیں۔
***اختتام ***
<
<!-- Global site tag (gtag.js) - Google Analytics --><script async src="https://www.googletagmanager.com/gtag/js?id=UA-179542533-1"></script><script>window.dataLayer = window.dataLayer || []; function gtag(){dataLayer.push(arguments);gtag('js', new Date()); gtag('config', 'UA-179542533-1');</script>
<script async src="https://www.googletagmanager.com/gtag/js?id=UA-179542533-1"></script>
<script>
window.dataLayer = window.dataLayer || [];
function gtag(){dataLayer.push(arguments);}
gtag('js', new Date());
gtag('config', 'UA-179542533-1');
</script>