ابھی ایک پوسٹ جو شئیر کی گئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ مسند کتاب ہے یا اسکا راوی کس مسلک سے تعلق رکھتا تھا۔یا یہ بالکل درست حالت میں ہے یا اس میں ردو بدل کیا گیا ہے کیونکہ سنا ہے کہ دشمنان اسلام اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی گئی ہے۔لیکن جہاں تک میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ پچھلے واقعات میں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھے اس پر سخت افسوس ہی کیا جا سکتا ہے لیکن میں دل و دماغ سے ایسی باتیں ماننے کا انکار کرتا ہوں۔ اسکا ایک حل جو میں سمجھتا ہوں کہ وہ یہ ہے شہیدان کربلا رضی اللہ تعالی عنہ معاملہ اور بالخصوص حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا معاملہ ہو ہم اس پر کوئی بات نہیں کر کتے کے کون اس وقت واقعے میں شریک تھا یا نہیں بس یہ معلوم ہے کہ اس کا معاملہ ہو اللہ پاک کے سپرد ہے اور اللہ تعالی کسی کو نہیں چھوڑے گا جس نے بھی زرہ برابر کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو گی اس بات پر سب متفق ہونگے مجھے امید ہے جہاں تک میری ناقص عقل کا معاملہ ہے تو میں نے سنا ہے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ بہت بہادر انسان تھے اللہ تعالی نے انکو خصوصی طاقت عطا فرمائی تھی انکے دور میں کسی کی جرآت نا تھی کہ کوئی معازاللہ انکے بارے میں ناپاک ارادہ کر سکے۔لہذا اگر کوئی حضرت علی ر۔ع اور حضرت امام حسین ر۔ع کو کمزور مجھتا ہے تو وہ اسکے ایمان کی کمزوری ہے جسے اللہ تعالی نے خصوصی طاقت دی ہو اسے کوئی دشمن زیر نہیں کر سکتا ہے۔تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ عظیم ہستیاں آپس میں رشتہ دار چچا زاد چچا ۔ماموں زاد اور اس طرح آپس میں رشتے دار تھے یہ آپس کی لڑائی تھی۔ جو اس وقت خلافت حاصل کرنے کے لیے گئی اس میں کچھ سیاسی پہلو اور عرب لوگوں کے رسم و رواج تھے جو اختلافات کا سبب بنے اور حضرت امام حسین ر۔ع جن پر ہمارے ہم اور ہمارے ماں باپ قربان اور تمام آل رسول پر ہر مسلمان ایمان رکھنے والا انپر اپنی جان کا نذرانہ دینے کو تیار ہے آل رسول کا تقدس ہر مسلمان کے ایمان کا اول رکن ہے اس کے بغیر کسی کا دین کامل نہیں ہو سکتا ہے۔وہ جتنے اہل تشیع کے لیے محبت اور احترام کا درجہ رکھتے ہیں اتنا ہی اہل سنت کے دلوں میں بھی رکھتے ہیں۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں۔ اگر دو بھائی آپس میں کسی بات پر لڑ پڑیں اور اور ان میں سے ایک جانبحق ہو جائے تو وہ اللہ اور قانون کی نظر میں مجرم تو ہے اور سزا وار بھی لیکن جس نے مارا ہے وہ بھی بھائی ہے تو کیا اس کو ہم کافر کہیں گے فاسق کہیں گے مشرک کہیں گے زندیق کہیں گے نہیں بالکل نہیں اس سے اس کا ایمان ختم نہیں ہو جاتا ہے یا اسکی نسلیں دین سے خارج نہیں ہو جاتی ہیں۔بلکہ وہ ایک مجرم ہے اور قانون کے مطابق اس کو سزائے موت مقرر ہے جب اس کو سزائے موت ہو جاتی ہے تو اسکے گناہ اللہ بھی معاف کر دیتا ہے یہ باتیں سنی عقیدہ کے مطابق کر رہا ہوں کیونکہ دوسرے مسلک کے بارے میں عالم دین ہی بتا سکتا ہے ۔اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس نے جس پر ظلم کیا اللہ تعالی اس سے روز محشر حساب لے گا۔ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ فلاں صحیح ہے فلاں غلط ہے ۔حضرت امام حسین ر۔ع کا معاملہ تو صاف ہے یزید اور اسکے ساتھی جو بھی تھے حالانکہ انمیں شمر ظالم منحوس جو تھا وہ حضرت علی کا سالہ تھا۔ اس طرح علما اکرام کی باتیں بھی تفصیلی واقعہ بتاتی ہیں۔مگر ہم میں سے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ اتنی بڑی بر گزیدہ ہستیوں کے بارے میں کچھ بولیں بس مسلمان صرف مسلمان ہے وہ دین سے خارج دین کے انکار کے بعد ہوتا ہے۔ لہذا اللہ پاک کو سب معلوم ہے کسی باپ رحمن ہوتا ہے بیٹا شیطان نکل آتا ہے ۔کسی کا باپ شیطان ہوتا ہے بیٹا شیطان بن جاتا ہے ہم لوگ مسلمان ہیں آپس میں تکرار نہیں کرنی چاہیے آجکل بین الاقوامی طاقتیں مسلمان کو کمزور کرنا چاہ رہی ہیں اس لیے یہ تھرڈ جنریشن وار سوشل میڈیا کے زرئعیے لڑانا ان کا مقصد ہے ۔کسی نے ایک بال برابر بھی کسی کو تکلیف دی یا اس کا حق مارا اللہ اس کو سزا دے گا ہم نہیں دے سکتے ۔لکھنے میں جو غلطی ہوئی ہو یا الفاظ صحیح نا ادا ہو سکے ہوں تو سب سے پہلے اللہ پاک اور پھر باقی اصحاب سے معافی کا طلبگار ہوں شکریہ براہ مہربانی اس کو اہل سنت عقیدہ کے تحت لکھنے کا سزا وار ہوں باقی لوگ اپنے عقیدے
کے مطابق جو چاہیں سمجھیں یا عمل کریں شکریہ