ایک دِن میں محلے میں باورچی کے پاس بیٹھا تھا ، دِل بہت بے چین تھا ، میں نے باورچی سے سوال کیا :
یار میں نمازیں پڑھتا ہوں ، روزے رکھتا ہوں ، کوئی بُرا کام نہیں کرتا ، پھر بھی تنگدستی رہتی ہے ، رب کے ہاں بات نہیں بنتی ،
باورچی کہنے لگا : باؤ جی ذرا ہنڈیا پکا لیں پھر اِس پر بات کرتے ہیں ، یہ کہہ کر باورچی نے ہنڈیا چولہے پر رکھی ، پیاز ڈالا ، لہسن ڈالا ، ٹماٹر نمک مرچ مصالحہ سب کچھ ڈال کر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ، اور باتیں کرنے لگا ، باتیں کرتے کرتے اچانک میری نظر چولہے پر پڑی ، دیکھا باورچی آگ جلانا بُھول گیا ، میں نے اُسکی توجہ دلائی ،تو کہنے لگا ، باؤ جی ہنڈیا میں سب کچھ تو ڈال دیا ہے پَک جائے گی ، میں نے کہا آگ نہیں جلائی تو ہنڈیا کیسے پَک جائے گی ؟ جواب میں کہنے لگا ، باؤ جی جس طرح ہنڈیا میں سب کچھ موجود ہونے کے باوجود آگ لگائے بغیر ہنڈیا نہیں پَک سکتی بالُکل اسی طرح نماز ، روزہ ، زکواہٌ ، خیرات کرنے سے اُس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہو گا جب تک اپنے وجود کوتقویٰ اور پرہیزگاری کی آگ پر نہیں چڑھاؤ گے اور یہ آگ آپکے ضمیر اور کردار نے لگانی ہے ،
غُصہ ، غیبت ، حِرص ، منافقت ، ہوس اور بُغض سے جان چھڑاؤ ، اپنی ذات کو مخلوق کی خدمت کا تڑکا لگاؤ تب جا کر وجود کی ہنڈیا پَکے گی ، پھر بات بنے گی پھر اللہ سے رابطہ ہو گا
ربِ کریم سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کے دینی و دُنیاوی معاملات سیدھے رکھے : آمین
<