راقم کی کتاب الاربعین فی مناقب امیر المومنین سے ماخوذ۔ ساجد خان نقشبندی
حضرت امیرمعاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام
رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نظر میں
اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ :أِنِّیْ لَاَتَمَنّٰی أَنْ یَّزِیْدَ اللّٰہُ عز و جل مُعَاوِیَۃَ مِنْ عُمْرِیْ فِیْ عُمْرِہٖ
( الطبقات لابی عروبۃ المتوفی 318 ھ ،ص41،دارالبشائر)
میں یہ تمنا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی معاویہ کو میری عمربھی لگادے ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ : لَا تَذْکُرُوْ ا مُعَاوِیَۃَ أِلاَّ بِخَیْرٍ
(البدایۃ والنہایۃ ،ج8،ص177، التاریخ الکبیر،ج4،ص328،رقم 1405 دارالکتب العلمیۃ ،بیروت، سیر اعلام النبلاء ،ج3،ص126)
لوگو! معاویہ کا ذکر صر ف خیر کے ساتھ ہی کیا کرو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے کسی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی برائی بیان کی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہمارے سامنے قریشی جوان کا گلہ نہ کرو جو غصے میں بھی ہنستا ہے رضامندی کے ساتھ جو چاہو اس سے لے لو مگر اس سے چھیننا چاہو تو کبھی چھین نہ سکو گے۔
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ :
مَا رَأَیْتُ أَحَداً بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَسْوَدَمِنْ مُّعَاوِیَۃَ۔
(اسد الغابۃ ،ج4،ص434،الاستیعاب ،ص660)
میں نے نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ سیادت و سرداری کے لائق کسی کو نہ دیکھا۔
اسود کا ایک معنی سخاوت کا بھی ہے۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ :أَصَابَ أِنَّہ‘ فَقِیْہ’‘
(الصحیح لامام البخاری،ج۱،ص:۵۳۱)
ؔمعاویہ کو کچھ نہ کہو کہ وہ فقیہ تھے۔
حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالی عنہ :مَارَأَیْتُ أَحَداً بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أَشْبَہَ صَلَاۃً بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنْ أَمِیْرِکُمْ ھَذَا یَعْنِیْ مُعَاوِیَۃَ
(مسند الشامیین للطبرانی ،ج1،ص168 رقم282،مجمع الزوائد ،ج9، ص590،رقم15920، دارالفکر،بیروت،حلیۃ الاولیاء،ج8،ص275)
میں نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ نبی کریم ﷺ جیسی نماز پڑھتے ہوئے کسی کو نہ دیکھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص :
مَا رَأَیْتُ أَحَداً بَعْدَ عُثْمَانَ أَقْضٰی بِحَقٍّ مِّنْ صَاحِبِ ھَذَا الْبَاب یَعْنِی معاویۃ
(تاریخ الاسلام للذہبی ،ج4،ص313، البدایۃ والنہایۃ ،ج8،ص193)
میں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑھ کر کسی کو حق کا پور کرنے والا اور حق کا فیصلہ کرنے والا نہ پایا۔۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ
قتلای و قتلا معاویۃ فی الجنۃ
دیگر بزرگان دین کے اقوال
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ :
رایت رسول اللہ ﷺ فی المنام و ابو بکر و عمر جالسان عندہ فسلمت و جلست فبینما انا جالس اذا اتی بعلی و معاویۃ فادخلا بیتا و اجیف الباب و انا انظر فما کان باسرع من ان اخرج علی وھو یقول قضی لی و رب الکعبۃ ثم ما کان باسرع من ان خرج معاویۃ وھو یقول غفرلی و رب الکعبۃ۔
(البدایۃ النہایۃ ،ج8،ص188,189)
میں نے خواب میں نبی کریمﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ حضر ت ابو بکر صدیق او ر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما آپ کے سامنے تشریف فرما تھے میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا کہ اسی دوران حضرت علی و حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہماکو بلا یا گیا اور دونوں کو ایک کمرے میں داخل کردیا گیا اور دروازہ بند کردیا گیا۔میں غور سے اس ساری صورتحال کو دیکھتا رہا کہ تھوڑی ہی دیر میں حضرت علی یہ کہتے ہوئے نکلے :رب کعبہ کی قسم میرے حق میں فیصلہ ہوگیا ‘‘ اور پھر تھوڑی دیر کے بعد امیر معاویہ بھی باہر تشریف لائے یہ کہتے ہیں ’’ خدا کی قسم میری بخشش ہوگئی ‘‘۔
عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ :
سئل عبد اللہ ابن مبارک ایھما افضل معاویۃ ابی سفیان ام عمر بن عبد العزیز ؟ فقال واللہ ان الغبار الذی دخل فی انف معاویۃ مع رسول اللہ ﷺ افضل من عمر بالف مرۃ صلی معاویۃ خلف رسول اللہ ﷺ فقام سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویۃ ربنا ولک الحمد فما بعد ھذا ؟
(وفیات الاعیان،ج3،ص33 ،دار صادر بیروت ،البدایۃ والنہایۃ،ج8،ص201،مختصر تاریخ دمشق ،ج25،ص38,39)
عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ امیر معاویہ اور عمر بن عبد العزیز میں سے کون افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ امیر معاویہ کی ناک میں جو غبار نبی کریم ﷺ کی معیت میں داخل ہوا وہ بھی عمر بن عبد العزیز سے ہزار درجے افضل ہے۔اللہ کے بندو ! معاویہ تو وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی پس جب نبی کریم ﷺ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے معاویہ ربنا ولک الحمد کہتے
اللہ اکبر!
صلی معاویۃ خلف رسول اللہ ﷺ فقام سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویۃ ربنا ولک الحمد فما بعد ھذا ؟
اس جملے کی معنویت و جامعیت کی ترجمانی باوجود کوشش کے اردو میں مجھ سے نہ ہوسکی۔
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ :
لو رأیتم معاویۃ لقلتم ھذا المہد ی ۔
( البدایۃ النہایۃ ،ج8،ص195،السنۃ لابی بکربن الخلال،ج2ص204 ، مختصر تاریخ دمشق ،ج25،ص53)
اگر تم معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں۔
حضرت اعمش رحمۃ اللہ علیہ :
لو رأیتم معاویۃ لقلتم ھذا المہد ی ۔
(المعجم الکبیر،ج19،ص308،رقم691،مکتبۃ ابن تیمیۃ،القاہرۃ)
اگر تم معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں۔
حضرت معافی بن عمران رحمۃ اللہ علیہ :
سئل المعافی بن عمران ایھما افضل معاویۃ او عمر بن عبد العزیز ؟ فغضب من ذالک غضبا شدید ا و قال لا یقاس باصحاب رسول اللہ ﷺ احد ۔ معاویۃ صاحبہ و صھرہ و کاتبہ و امینہ علی وحی اللہ عز و جل و قد قال رسول اللہ ﷺ دعوا لی اصحابی و اصھاری فمن سبھم فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین ۔
(مختصر تاریخ دمشق ،ج25ص73،البدایۃ والنہایۃ ،ج8،ص202،)
معافی بن عمران سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ ؓ اور عمر بن عبد العزیز ؒ میں کون افضل ہے؟ تو معافی بن عمران اس بے تکے سوال پرسخت غضبناک ہوئے اور فرمایا نبی کریم ﷺ کے صحابہ پر کسی کو قیاس مت کیاجائے ۔معاویہ تو نبی کریم ﷺ کا صحابی اور سسرالی اور کاتب اور اللہ کی وحی پر امین ہیں۔ ( عمر بن عبد العزیز ؒ کوبھلا ان میں سے کونسی فضیلت حاصل ہے ؟) اور تحقیق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری خاطر میرے صحابہ اور میرے سسرالیوں کو کچھ نہ کہو جوان کو برا بھلا کہتا ہے تو اس پر اللہ اس کے فرشتوں اور تمام مخلوق کی لعنت ہے ۔
ربیع بن نافع رحمہ اللہ علیہ :
مُعَاوِیَۃُ سِتْرِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ فَأِذَ کَشَفَ الرَّجُلُ السِّتْرَ أِجْتَرَأَ عَلَی مَاوَرَآہ‘ ( مختصر تاریخ دمشق ،ج25،ص74
امیر معاویۃاصحاب رسول ﷺ کا پردہ ہے او ر جب کوئی شخص کسی چیز کا پردہ کھول دیتا ہے تو پھر جو کچھ پردہ کے اندر ہے اس پر جرات کرنا اس کیلئے مشکل نہیں ہوتا۔
یا ابا الحسن اذا رایت رجلا یذکر لاحد من الصحابۃ بسوء فاتھمہ علی الاسلام
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
قاضی عیاض شافعی المتوفی 544ھ لکھتے ہیں:
قال مالک رحمہ اللہ …من شتم احدا من اصحاب النبی ﷺ ابا بکر او عمر او عثمان او معاویۃ او عمرو ابن العاص فان قال کانوا علی ضلال و کفر قتل و ان شتمھم بغیر ھذا من مشاتمۃ الناس نکل نکالا شدیدا
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ،ج2،ص184،المکتبۃ الحقانیۃ بشاور)
جس نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ ابو بکر ،عمر ،عثمان ،معاویہ ،عمرو ابن العاص میں سے کسی کو گالی دی تو دیکھا جائے گا کہ اگر اس نے انہیں گمراہ اور کافر کہا تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اگر اس نے صرف گالی دی تو اسے ذلت آمیزسزا دی جائے گی۔
علامہ عبد العزیز فرہاروی رحمۃ اللہ علیہ
قَدْ صَرَّحَ عُلَمَائُ الْحَدِیْثِ بَأَنَّ مُعَاوِیَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ‘ مِنْ کِبَارِ الصَّحَابَۃِ نُجَبَآئِھِمْ وَ مُجْتَہِدِیْھِمْ وَ لَوْ سُلِّمَ أَنَّہ‘ مِنْ صِغَارِھِمْ فَلاَ شَکَّ فِیْ أَنَّہ‘ دَخَلَ فِیْ عُمُوْمِ الْاَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ الوَّارِدَۃِ فِیْ تَشْرِیْفِ الصَّحَاَبۃِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بل قد ورد فیہ بخصوصہ احادیث کقولہ علیہ الصلوۃ والسلام اللھم اجعلہ ھادیا و مھدیا واھدبہ رواہ الترمذی و قولہ علیہ الصلوۃ والسلام اللھم علم معاویۃ الحساب والکتاب وقہ العذاب رواہ احمد و ما قیل من انہ لم یثبت فی فضلہ حدیث فمحل نظر و کان السلف یغضبون من سبہ و طعنہ و قیل لابن عباس ان معاویۃ صلی الوتر رکعۃ واحدۃ قال دعہ فانہ فقیہ صحب رسول اللہ ﷺ کما فی الصحیح البخاری و سبہ رجل عند خلیفۃ الراشد عمر بن عبد العزیز فجلدہ و قال آخر امیر المومنین یزید فجلدہ و قیل لامام الجلیل عبد اللہ بن المبارک امعاویۃ افضل ام عمر بن عبد العزیز قال غبار فرس معاویۃ اذا غزا مع رسول اللہ ﷺ افضل من عمر و قال القاضی عیاض المالکی فی الشفاء قال مالک من شتم احدا من اصحاب رسول اللہ ﷺ ابا بکر او عمر او عثمان او معاویۃ او عمر و ابن العاص فان قال کانوا علی کفر و ضلال قتل و ان شتمھم کغیر ھذا من شاتمۃ الناس نکل نکالا شدیدا انتہی و قد الفنا فی الباب رسالۃ سمیناھا الناہیۃ عن ذم معاویۃ
(النبراس،ص550،551،مکتبہ رضویہ لاہور)
ترجمہ:علماء حدیث نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ کبار صحابہ میں سے ہیں آپ نجیب و مجتہد صحابی ہیں اگر آپ کو چھوٹا صحابی بھی مانا جائے تو بھی آپ بلاشبہ ان احادیث کے عموم میں داخل ہیں جو صحابہ کرام کی شان میں وارد ہوئی ہیں ۔
جب کہ آپ کے حق میں خصوصی احادیث بھی موجود ہیں جیسے آپ ﷺ کا فرمانا کہ اے اللہ معاویہ کو ہادی مہدی بنا اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دے جسکو روایت کیا ہے ترمذی نے اور جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ کو حساب و کتاب کا علم سکھا اور اسے عذاب سے محفوظ فرما جیسا کہ امام احمد نے اس کا روایت کیا ہے ۔اور یہ جو کسی نے کہہ دیا کہ آپ کی شان میں کوئی حدیث ثابت نہیں تو یہ بات قابل قبول نہیں ۔ سلف صالحین کے سامنے جب کوئی امیر معاویہ ؓ کو برا بھلا کہتا تو وہ غضب ناک ہوجاتے اور ابن عباس کو کہا گیا کہ معاویہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں کچھ نہ کہو وہ فقیہ ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ کے صحابی ہیں ( بخاری)اور ایک آدمی نے خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز کے سامنے آپ کو گالی دی تو آپ نے اسے کوڑے لگوائے اسی طرح کسی نے آپ کے سامنے یزید کو امیر المومنین کہا تو اسے بھی کوڑے لگوائے امام جلیل عبد اللہ بن مبارک سے کسی نے پوچھا کہ معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز تو آپ نے فرمایا کہ معاویہ ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کیا تھا اس وقت ان کے گھوڑے کی گرد بھی عمر بن عبد العزیز سے افضل ہے ۔ہم نے اس موضوع پر ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام ’’الناہیہ عن ذم معاویہ ‘‘ ہے ۔
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیاحضرت معاویہ افضل ہیںیاحضرت عمر بن عبد العزیز ؟تو آپ نے جواب دیا وہ غبار جو حضو ر علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ حضرت معاویہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوا وہ کئی درجے عمر بن عبد العزیز سے افضل ہے ۔
(مکتو بات امام ربانی ،دفتر اول ،مکتوب نمبر 58،ج1،ص196، مترجم سعید احمد نقشبندی بریلوی ،اعتقاد پبلشنگ ہاوس دہلی)