کراچی کا ناظم آباد ۔
دلچسپ یادیں اور یادگار باتیں 👇 ✍ کراچی اور کراچی کا ناظم آباد تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کراچی میں آنے والے ادب پسند مہاجرین کی بڑی تعداد کا مسکن ناظم آباد ہوا کرتا تھا، ناظم آباد کا ذکر کریں تو ان مشہور ناموں کا ذکر ضروری ہوجاتا ہے جو کبھی یہاں آباد رہے۔
👈ناظم آباد کے مکین چند معروف افراد میں صادقین، اقبال مہدی، اداکار شکیل، فلم میکر سعید رضوی، اداکارہ سنگیتا، ادیب مختار زمان، ابن انشا،ابن صفی اسکالر عالیہ انعام، شاعر احمد صدیق عرف مجنوں گورکھ پوری، رئیس امروہی۔محسن بھوپالی،صحافی مجاہد بریلوی ریاض فرشوری ، کالم نگار نصراللہ خان، ریڈیو پر سلمان میاں بینجو پلیئر کہلائے جانے والے گلوکار سلمان علوی، سیونگ فیس کے شہرت یافتہ پلاسٹک سرجن ڈاکٹر محمد جواد، ڈاکٹر ںقائی، ڈاکٹر عاصم حسین اور انکی والدہ جو گاینا کولوجست تھیں ہاشم رضا کے بھائی عالی رضا چند قابلِ ذکر نام ہیں۔ ( مذید نام اپ بھی شامل کرسکتے ھیں)
👈یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں کہ 1950 سے لے کر 1970 تک ناظم آباد ہندوستان کی مسلم تمدن کا مرکز اور گنگا جمنی تہذیب کا وارث ہوا کرتا تھا، پنجاب یا بنگال سے نقل مکانی کرنے والے افراد اس صوبے کے بھارتی حصے سے پاکستانی علاقے میں منتقل ہوئے، اس کے نتیجے میں لاہور اور ڈھاکا میں تہذیب کی ہم رنگی برقرار رہی۔
👈کراچی پہنچنے والے مہاجرین اس سے مختلف تھے، ان میں سے بیشتر اپنے آبائی علاقوں میں شورش کے سبب، تو دیگر نئے ملک میں نئے مواقعوں کی تلاش میں کراچی پہنچے تھے، ان کا تعلق برصغیر کے تہذیبی مراکز لکھنؤ، دہلی، امروہا اور حیدرآباد سے تھا۔
👈اس وقت تک کراچی کا کردار بیوپاری بندرگاہ کا تھا، اردو بولنے والے افراد نے اسے ڈرامائی انداز میں تبدیل کیا اور حیات نو بخشی۔
👈مثال کے طور پر، انڈین سول سروس ( آئی سی ایس) میں کام کرنے والے مسلمان ممبران، بوقتِ پارٹیشن آئی سی ایس افسران کی تعداد 980 تھی جن میں سے 468 یوپی، 352 ہندو اور 101 مسلمان تھے بقیہ افسران کا تعلق دیگر قومیتوں سے تھا ۔
👈 ملک کے دارالحکومت کراچی کے حصے میں آئی سی ایس افسران کی سب سے زیادہ تعداد آئی، 👈 اردو بولنے والے دانشوروں سمیت یہ افراد کراچی کے مضافاتی علاقوں جیسے کہ پی آئی بی کالونی، مارٹن روڈ، اور جہانگیر کوارٹرز میں آباد ہوگئے جہاں انہیں چھوٹے چھوٹے گھر الاٹ کیے گئے تھے۔
👈آزادی کے وقت 4 لاکھ آبادی کے شہر کراچی میں 1951 تک آبادی 10 لاکھ تک پہنچ گئی، جلد ہی کئی نئے رہائشی علاقے بن گئے جن میں سے ایک علاقہ پاپوش نگر قبرستان سے لیاقت آباد فلائی اوور سے متصل علاقہ بھی تھا جو گجر نالے اور اورنگی ندی کے ساتھ واقع تھا۔
👈تقسیم سے قبل، کراچی شہر کے مرکز سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھی اور بلوچی گاؤں سے جڑا ایک اجاڑ علاقہ تھا لیکن 1950 تک حکومت علاقے کو قبائلی رہنما مستی بروہی خان سے خرید چکی تھی،اور 1952 تک اس علاقے کو پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام پر ناظم آباد کا نام دیا جاچکا تھا۔
👈ایک اور نئے علاقے کو لیاقت علی خان کے نام پر لیاقت آباد کا نام دے دیا گیا جسکی تاریخ اور پر منظر میں بعد میں بات ھوگی
👈1950 کی مردم شماری میں مہاجر قرار دیے جانے والے افراد کو ناظم آباد میں واقع پلاٹ کم قیمت پر فروخت کیے جانے لگے، نئے مکینوں کو پلاٹس ساڑھے 3 روپے مربع گز کی سبسڈی شدہ قیمت پر فروخت کیے گئے، جن میں سے اکثر پلاٹوں کا رقبہ 216 مربع گز تھا لیکن سامنے سڑکوں پر موجود پلاٹس کا رقبہ 600 مربع گز تک تھا۔
مہاجرین کو ایک ہی پلاٹ اپنے لیے حاصل کرنے کی اجازت تھی چاہے وہ زیادہ خریدنے کی حیثیت ہی کیوں نہ رکھتے ہوں، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں کئی دوسرے افراد محروم رہ سکتے ہیں، ان کی اعلیٰ اقدار انہیں اس قسم کی کاروباری سوچ رکھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔
👈 مہاجرین کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ جو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اسے دوبارہ حاصل کرسکیں، جیسے کہ ڈاکٹر آصف اسلم فرخی نے کہا ’ناظم آباد میں گھر ہونے کا مطلب ترقی اور متمول ہونے کی نشانی تھا، یہ اپنی بنیاد اور ملکیت قائم کرنے جیسا تھا، گھر حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا اورکئی پڑھے لکھے مڈل کلاس مہاجرین کے لیے یہ پاکستان میں ان کی پہلی ذاتی زمین تھی۔
👈ناظم آباد میں نئے آغازکا ایک واضح اشارہ تھا، اسی روح میں ادیب اور اسکالر شان الحق حقی نے اپنے گھر کو شعاعِ ساز کا نام دیا، دیگر کئی افراد نے اپنے آباؤاجداد اور پہچان کو تعظیم دینے کی روایت جاری رکھی۔
👈 مہاجرین کی شہر کو اپنی تہذیب میں ڈھالنے کی خواہش فن تعمیر میں دکھائی دیتی ہے، ناظم آباد میں واقع گھروں میں قائم برآمدے اور باغات میں شمالی انڈیا کے گھروں کی سی جھلک دکھائی دیتی۔
کلاسیکی انداز کے آہنگ سے جدید اسٹائل کی بناوٹ جو آرٹ ڈیکو، مغلیہ دور کے ستونوں اور باہری چکردار زینوں میں دکھائی دیتی ہے۔
کھلی جگہوں کا ہونا بھی ضروری تھا کیونکہ 1956 تک بجلی یہاں نہیں پہنچ پائی تھی اور پورا گھر گرمیوں میں گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے ویرانڈوں اور دالان میں سونے کو ترجیح دیتا تھا۔
👈1950 کے درمیان تک ناظم آباد کی آبادی کافی بڑھ چکی تھی، شعرا، فنکار، سرکاری ملازمین اور مسلم دانشوروں کی بڑی تعداد ماحول کو آباد کرچکی تھی جتنی اس سے قبل پہلے کبھی نہ رہی تھی، اس وقت کے ناظم آباد کا موازنہ 1920 میں پیرس کے علاقے مونٹپرنیسے سے کیا جاسکتا ہے جب وہاں پکاسو، ہیمنگوے، بیکٹ اور کئی مشہور لیجنڈ آباد تھے۔
سڑک کنارے درختوں کی قطاروں میں کشادہ راستے پر چلتے آپ کبھی صادقین سے ٹکرا جاتے جو ناظم آباد بلاک 2 میں واقع اپنے گھر سبطین منزل میں آباد تھے اور اگر آپ کسی ادیب یا لکھاری کی تلاش ہوتی تو پاس ہی موجود ابن انشا سے ان کے سفرناموں پر مختصراً بات چیت ہوسکتی تھی سیاست دان، ڈاکٹرز، وکلا، معلم سب ایک ہی سڑک پر آباد ہوتے۔
👈آج کے دور میں تہذیبی ماحول کا تصور کرنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن اس وقت رات دیر تک گھر کسی چوری کے ڈر کے بغیر کھلے رہتے ہر کوئی ایک دوسرے سے واقفیت رکھتا تھا۔ اور اپنے گھرو ں یا ناظم آباد کلب جیسی جگہوں پر اکھٹے ہوتے جہاں رات گئے تک برج کھیلتے یا ایڈیٹوریم میں کوئی کھیل دیکھتے ہوئے وقت گزارا جاتا۔
اگر کسی کو پڑھنے کا شوق ہوتا تو وہ ناظم آباد میں موجود کئی لائبریریوں میں سے کسی لائبریری کا رخ کرسکتا تھا۔
3 ہزار کتب اور 375 ادبی میگزین کے ساتھ موجود غالب لائبریری ایک مشہور مقام تھا، جسے فیض احمد فیض اور مرزا ظفرالحسن کی زیرنگرانی حبیب بینک نے تعمیر کیا تھا۔
ان دونوں افراد نے اس سے قبل ادارہ یادگار غالب کے قیام کے لیے بھی کام کیا تھا اور غالب لائبریری بھی ان کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھی، اس لائبریری کو صادقین کے پینٹ کیے گئے ٹن سائن کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل تھی جبکہ صادقین نے لائبریری کے اندرونی حصوں کے لیے بھی مصوری کی۔
ادبی شخصیات یہاں بیٹھ کر مطالعہ یا لیکچرز دیتیں اور غازی صلاح الدین تو اس مقام پر عصمت چغتائی، سبطِ حسن، جوش ملیح آبادی، جیلانی بانو، صفدر جعفری اور دیگر کئی معروف افراد کے ساتھ ہونے والے مکالموں کو یاد کرتے۔
فلموں کے شوقین افراد کے لیے بھی ناظم آباد کسی جنت سے کم نہ تھا جہاں بہت سے سینما گھر موجود تھے، عام انکلوژر میں 6 آنے دے کر جبکہ باکس سیٹ کے لیے ایک روپیہ ادا کرکے فلم دیکھی جاسکتی تھی، پاک کالونی کی طرف موجود چمن سینما، لبرٹی بلاک 2 میں نیا ریلیکس، پٹرول پمپ چورنگی پہ شالیمار موجود ہوتا تھا، پٹرول پمپ چورنگی کا نام 1956 میں علاقے میں شروع ہونے والے پہلے پٹرول پمپ کی وجہ سےپڑا تھا جبکہ کچھ آگے بڑھیں تو ریجنٹ سینما بھی موجود تھا۔
👈محرم کے دنوں میں یہ جگہ مرثیہ خوانی اور مجالس کا اہم مرکز بن جاتی جہاں رشید ترابی اور زیڈ اے بخاری کربلا کے شہدا کو یاد کیا کرتے، اس وقت میں پی ٹی وی ہر پیر کے دن بند ہوتا تھا، ایک عاشورہ پیر کے روز آیا، رشید ترابی کے کہنے کا اثر اتنا تھا کہ ان کے بھیجے ایک پیغام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی شام غریباں معمول کے مطابق نشر ہو۔
پڑھے لکھے طبقے کی اس قدر آبادی کے بعد تعلیم کو سنجیدگی سے لیا جانا حیرت انگیز نہیں تھا، 1951 میں بلاک 4 میں قائم ہونے والے ہیپی ڈیل اسکول نے کئی اہم طالب علم پیدا کیے اور اسی طرح بلاک 2 میں قائم گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول بھی کئی زرخیز ذہنوں کو سامنے لایا، اسی اسکول کی دوسری جانب واقع گورنمنٹ کالج ناظم آباد تھا جو 1960 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے خلاف ہونے والی طلبہ تحاریک کا اہم گڑھ بنا۔
علم و دانش کا ایک اور مرکز سرسید کالج تھا جس کی طلبا و طالبات کے لیے الگ الگ شاخیں تھیں، سرسید گرلز کالج کی پرنسپل سلمیٰ زمان لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر یقین رکھتی تھیں۔
دوسری جانب بلاک 1 میں ناظم آباد اسکول آف آرٹس تھا جو کراچی کا پہلا آرٹ اسکول بھی ہے، رابعہ زبیری کے گھر میں کھلنے والا یہ اسکول بعد میں کراچی اسکول آف آرٹس بن گیا۔
ناظم آباد کھیلوں کے میدان میں بھی کسی سے کم نہ تھا، بیڈمینٹن کے قومی چیمپئن منہاج احمد نے یہیں اپنے گھر کے باہر سڑک پر کھیلنے کا آغاز کیا، لیکن جو کھیل گلیوں کی رونق تھا وہ کرکٹ تھا۔
محمد برادرز، حنیف، وزیر، مشتاق اور صادق علی سب نے پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ ریئس فرسٹ کلاس کا حصہ بنے، صادق محمد اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب وہ ناظم آباد میں کلب کرکٹ کھیلا کرتے تھے،
ناظم آباد کے بلاک 1 سامنے سڑک پر سعادت علی، جو کلب کے مالک تھے، حنیف بھائی، بھتیجا شعیب، آصف اقبال، ظہیر عباس ہوتے تھے اور یہ سب ناظم آباد کلب کرکٹ میں ساتھ ہوتے تھے، لوگ دور دراز سے ہمیں کھیلتا دیکھنے آتے اور کھیل کی کوالٹی انگلش کاؤنٹی کرکٹ کی حریفانہ ہوتی‘۔
پاک کریسنٹ کی ٹیم تعلیمی بورڈ آفس سے نزدیک گراؤنڈ میں کھیلا کرتی، ظہیر عباس اگلی سڑک پر جبکہ صلاح الدین صلو اور انتخاب عالم بھی قریب بھی رہتے تھے، نیشنل کرکٹ کلب اپنے فاسٹ بولرز کے لیے مشہور تھا جبکہ رضویہ سوسائٹی ڈائمنڈ کرکٹ کلب میں محمود الحسن نام کا اسپن بولر تھا جس نے ایک بار اپنی بہترین لیگ اسپن سے حنیف محمد کو کلین بولڈ کردیا تھا جس کے بعد لٹل ماسٹر نے ٹیپ سے بال کے اسپن ہونے کا اندازہ لگایا۔
دنیا کے کچھ ہی علاقے کرکٹ پر اس قسم کے اثر کا دعویٰ کرسکتے ہیں حتیٰ کہ لاہور کے زمان پارک کے لوگ بھی نہیں ، 1960 کی دہائی کی ناظم آباد الیون کسی بھی بین الاقوامی ٹیسٹ ٹیم سے مقابلہ کرسکتی تھی۔
کھانے میں ناظم آبادی اپنے پرانی پسندیدہ چیزوں کو ہی پسند کرتے تھے، جیسے ڈاکٹر آصف فرخی بتاتے ہیں ، ’فن تعمیراور دانشورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کسی منتقل شدہ تہذیب کا آئینہ دار تھا، باورچیوں اور کھانے پکانے کے ماہرین کے ہمراہ انڈیا کا میٹھا اور کھانا یہاں آیا اس لیے ناظم آباد میں ملنے والی نہاری اتنی ہی ذائقے دار ہوتی جتنی کہ دہلی میں ہوتی تھی اور یہاں ملنے والے پیڑے بدایوں سے بھی اچھے ہوتے‘۔
👈کھانے پینے کے شوقین افراد کے لیے ناظم آباد میں بہت سے آپشن موجود تھے، بہترین مینگو شیک کے لیے آغا جوس کا رخ کیا جاسکتا تھا اور مشہور رس گلوں اور چاٹ کے لیے ناظم آباد چورنگی پہ واقع امبالا سوئیٹس پہنچا جاسکتا تھا، رضویہ کے نزدیک ملا چھولے اس کے مالک کی تیسری پیڑی تک منتقل ہوچکے ہیں ، صفائی کے لیے صرف 3 سے پانچ بجے علی الصبح بند ہونے والا وزیر رسٹورنٹ 22 گھنٹے صرف دو آنے میں چائے فروخت کرتا، سعدی اور فردوسی کی گرم گرم چائے اور وظیفے کے طور پر ملتی تعلیم بھی یہاں دستیاب تھی۔
👈چورنگی کی جانب آگے بڑھیں تو ملا حلوائی اور ملا ریسٹورنٹ جس نے 1.25 روپے کی قیمت میں چکن تکہ کراچی میں متعارف کروایا، کیفے ذائقہ اپنی نہاری کے لیےمشہور تھاجسے چند سال قبل گرادیا گیا اوراس کی جگہ مسجد تعمیر کردی گئی۔
اگر آپ کو بنی سنوری جگہ جانے کی خواہش ہو تو بلاک 1 کا الحسن آپ کو یہ انتظام فراہم کرتا۔
👏آج کے دور میں یہ سب چیزیں سراب معلوم ہوتی ہیں اس وقت کا ناظم آباد دہلی اور اوادھ کے بہترین لوگوں کی ایک چھوٹی سی کائنات تھی، لیکن پھر 1970 کی دہائی میں اس کے باسیوں کی یہاں سے منتقلی کے ساتھ ساتھ اس کا یہ کردار کم ہوتا چلا گیا۔
اس تغیر کو غازی صلاح الدین کے مطابق، کراچی کا دانشور طبقہ پی آئی بی کالونی سے ناظم آباد منتقل ہوا اور پھر پی ای سی ایچ ایس اور آہستہ آہستہ مقامات کی اس تبدیلی کے بعد غائب ہوگیا، ہر مرحلے پر کچھ نقصان ہوتا گیا اور سب سے بڑا نقصان تب ہوا جب لکھاری، فنکار، اسکالرز اور دیگر افراد ناظم آباد سے پی ای سی ایچ ایس اور دیگر علاقوں میں متقل ہوگئے، کراچی میں عقلیت کی موت اس وقت شروع ہوئی جب لوگوں نے ناظم آباد سے دور ہونا شروع کر دیا‘۔
👈اس وقت کا ناظم آباد اب نہیں رہا لیکن اب بھی اڑے اڑے رنگوں میں یاد کی صورت ہزاروں افراد کو اس وقت کا ناظم آباد یاد ہے جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ اس کا حصہ رہے، جو بلاشبہ برصغیر کی تہذیب سے سجا ایک پررونق علاقہ تھا *۔🤲🏻 آپ اس مضمون میں اپنی یادیں اور باتیں بھی شیتر کر سکتے ھیں.
Khalid Farshori Mujahid Barelvi
No comments: